لاہور: (روزنامہ دنیا) بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کی طرف سے جہاں آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد اب مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیا گیا ہے تو وہیں کئی قانونی سوالات نے بھی جنم لے لیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق پاکستان اور بھارت میں موجود اکثر آئینی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس اقدام سے کشمیر کا دیرینہ مسئلہ مزید قانونی پیچیدگیاں اختیار کر لے گا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر کا بھارت کیساتھ الحاق خود مختاری کی جس شرط پر ہوا تھا وہ معاہدہ ہی تحلیل ہوگیا ہے، جس سے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر 1947 کی پوزیشن پر چلا گیا ہے۔
تقسیم کے فوراً بعد کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑی تو اقوام متحدہ نے ثالثی کرتے ہوئے 1948 میں تنارع کشمیر کے حل کیلئے دو قراردادیں منظور کیں جن میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا اور یہ تجویز دی گئی کہ انہیں رائے شماری کا موقع فراہم کیا جائے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے اپنی قرارداد میں پاکستان اور بھارت دونوں سے اپنی اپنی افواج کے انخلا کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کے ذریعے جموں اور کشمیر کے متنازعہ علاقے کے الحاق کا فیصلہ کیا جائے گا۔
بین الا قوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی نے کہا انٹرنیشنل لا میں تو کشمیر اب بھی ایک متنازعہ علاقہ ہی ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کیا ہے کیونکہ ہر لحاظ سے آرٹیکل 370 ان سے وابستہ ہے، یہ علاقہ اب بھی بھارت کا حصہ تصور نہیں کیا جائے گا۔ بھارت کے سینئر وکیل ایم ایم انصاری اس بات سے متفق نظر آتے ہیں کہ بھارت نے سرے سے کشمیری عوام کی خواہشات کا خیال ہی نہیں رکھا اور کشمیر اب بھی ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ انہوں نے کہا دیگر ریاستوں کے برعکس کشمیر کبھی بھارت میں ضم ہی نہیں ہوا لیکن اب ہم 70 سال پیچھے چلے گئے ہیں۔
احمر بلال صوفی کے مطابق اس فیصلے کے رد عمل میں پاکستان کے پاس کئی آپشن موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا پاکستان اقوام متحدہ کی توجہ دلانے کے علاوہ علاقائی کشیدگی اور ‘ملٹری ڈپلائے منٹ’ کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا خاص سیشن بلانے کی بات کر سکتا ہے۔ سکیورٹی کونسل کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان کے مابین کشمیر کے مسئلے کی بات چیت کی رپورٹ سکیورٹی کونسل کو پیش کرے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ پاکستان دنیا کے سامنے موقف دلائل کے ساتھ پیش کرے۔ کیونکہ برطانیہ، یورپی یونین، امریکہ، روس، چین اور دیگر ممالک کوئی بھی سیاسی پوزیشن لیتے وقت اپنے قانونی ماہرین سے مشورہ ضرور کرتے ہیں کہ اس میں کونسا فریق زیادہ حق بجانب ہے۔ پاکستان دنیا کے سامنے اپنا موقف منوا سکتا ہے۔