لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان کی آزاد کشمیر آمد اور جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کو کشمیر کے حوالے سے پیدا شدہ صورتحال میں غیر معمولی نظریاتی اور تجزیاتی قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کشمیر کاز پر اپنی یکسوئی کے اظہار کے ساتھ خصوصاً اس ذہنیت کو آشکار کیا جس پر خود بھارتی وزیراعظم، ان کی جماعت راغب ہے۔ خصوصاً آر ایس ایس کی فلاسفی کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے مذموم ایجنڈا، عزائم کو بے نقاب کیا اور کہا کہ ہم آپ کے خیالات، ناپاک ارادوں سے خبردار ہیں مگر یاد رکھیں کہ کوئی ایسی حرکت کی تو اینٹ کا جواب پتھر سے ملے گا۔
وزیراعظم عمران خان کا کشمیر پر سفیر بننے کا اعلان، مسئلہ سے کمٹمنٹ کا مظہر ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس امر کا اظہار کر دیا ہے کہ ہمارے پاس ایسی معلومات ہیں کہ بھارت آزاد کشمیر پر حملے کا اقدام کر سکتا ہے۔ بھارت نے ثابت کیا کہ وہ لاتوں کا بھوت ہے جو باتوں سے ماننے والا نہیں۔ جہاں تک کشمیر کے حالات اور وہاں رونما ہونے والے واقعات کا تعلق ہے تو اس امر میں شک نہیں کہ بھارت نے جو اقدام کشمیر جیسے سلگتے مسئلے سے جان چھڑوانے کیلئے کیا تھا وہ یقیناَ اس کے گلے میں پڑ گیا ہے۔ کشمیر کے حالات ایک تاریخی موڑ پر آ چکے ہیں۔ کشمیر میں تبدیلی کو دستک دیتا دیکھ کر ہی بھارت انتہائی اقدام پر مجبور ہوا۔ کشمیری قوم اپنا فیصلہ سنا چکی ہے وہ اپنا حق حاصل کرنے کیلئے جان کی بازی لگا چکی ہے۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہمیں کس حد تک جانا ہے۔ قومی اور عسکری قیادت تو یہ عزم ظاہر کر رہی ہے کہ کشمیر پر آخری حد تک جائیں گے۔ اس کیلئے عزم کافی نہیں اس کیلئے مربوط حکمتِ عملی کا تعین کرنا ہے۔
قوم کو ہر طرح کے حالات کیلئے تیار کرنا ہے۔ اہلِ سیاست کو اعتماد میں لینا پڑے گا، نئے حالات اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ حکومت کشمیر کاز پر یکسوئی کا آغاز کرتے ہوئے ایک حد تک گزر جانے کا ایجنڈا ظاہر کرے تو دوسری جانب اپوزیشن اپنی علیحدہ دکان چلانے کی کوشش کرے۔ پاکستان کے حالات اب کسی انتشار، خلفشار کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ جہاں تک نئے حالات میں کشمیر ایشو خصوصاً بھارت کے جارحانہ طرز عمل کے خلاف اس پر دباؤ بڑھانے کی بات ہے تو وزیراعظم عمران خان تو ایک قدم آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن یہ سلسلہ اب بیانات، اعلانات کے ساتھ اقدامات کا متقاضی بھی ہے جس میں بنیادی بات یہ کہ کشمیر پر قابض بھارت پر اتنا دباؤ پڑے اور اسے فیصلہ کی اتنی زیادہ قیمت ادا کرنی پڑے کہ وہ مسئلہ کے پر امن حل پر آ جائے۔ عالمی رائے عامہ کو اتنا متحرک، فعال بنایا جائے اور بھارت پر اپنا دباؤ بڑھایا جائے کہ بھارت واپس اقوام متحدہ کی قراردادوں پر آئے۔
بھارت کے ساتھ دو طرفہ تجارت کے خاتمہ کے ساتھ اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ خصوصاً مشرق وسطیٰ کے ممالک میں 50 فیصد برآمدات بھارت سے جا رہی ہیں۔ مؤثر سفارتکاری کے ذریعہ یہ معاشی دباؤ بھی ہندوستان پر کارگر ہو سکتا ہے۔ قوم کو بھارت کے جارحانہ عزائم کے خلاف تیار رکھا جائے۔ فوج کا چوکس ہونا اور پیچھے قوم کا فعال رہنا سونے پر سہاگا والی بات ہے کیونکہ دشمن بڑا عیار اور مکار ہے اور یہ تیاری اس کیلئے کسی بڑی ہزیمت سے کم نہیں ہوگی اور وہ جان جائے گا کہ کشمیر پر اس کے اقدام کا اسے فائدہ تو نہ ہوا الٹا پاکستان کا طرز عمل اور رد عمل انہیں کے گلے پڑ گیا دراصل اب بنیادی کردار پاکستان کا ہی ہے کیونکہ ہم اس مسئلہ کے فریق ہی نہیں وکیل بھی ہیں۔ ہمیں اپنا مؤثر کردار ادا کرنا ہے۔
کشمیر کے نوجوان جرأتمندانہ انداز میں مقبوضہ وادی کی فضا بدل سکتے ہیں۔ اگر پاکستان کی حکومتی جماعتیں اور عوام اپنے فرض کی ادائیگی کیلئے اٹھ کھڑے ہوں تو حالات بہت کم وقت میں بدل سکتے ہیں۔ اس کا فائدہ صرف کشمیر کاز کیلئے ہی نہیں بلکہ اس سے پاکستان کے عوام کو نئی زندگی، نیا حوصلہ ملے گا اور اس جذبے اور ولولے کو پاکستان کی ترقی، خوشحالی کیلئے بروئے کار لایا جا سکتا ہے جو آج تک خواب ہی بنا ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کشمیر کی اسمبلی میں اپنے خطاب میں آر ایس ایس کی ذہنیت کو ایکسپوز کر کے دراصل قوم کو ان کے عزائم سے آگاہ کیا ہے کیونکہ یہ آر ایس ایس ہی ہے جو اکھنڈ بھارت کی بات کرتی ہے۔ تقسیم کی لکیر کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ یہ وہ ذہنیت ہے جو دو طرفہ تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے اور اب ایک جانب جہاں دنیا بھر میں انتہا پسندی، شدت پسندی کے خاتمہ کی تحریک موجودہے، تو دوسری جانب ایسی انتہا پسند لیڈر شپ غالب آ چکی ہے جو جنگی جنون میں مبتلا ہے۔ جو طاقت کے زور پر خود کو منوانا چاہتی ہے۔
یہ ذہنیت اور یہ رجحان خود عالمی امن کیلئے خطرہ ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول دنیا میں امن کی بجائے جنگ و جدل کو فروغ دے گا۔ آج کا پاکستان چھوٹا ضرور مگر بھارت جیسے ملک کے مذموم عزائم اور جارحانہ رجحانات کا علاج رکھتا ہے اور ویسے بھی پاکستان کو بھارت کے خلاف کچھ ایسے پرانے ادھار بھی چکانا ہیں۔ لہذا بھارت ایسے کسی اقدام سے باز رہے جو خطہ میں دھماکا خیز صورتحال کا باعث بنے۔ بھارت اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ کشمیر کو ہڑپ کر گیا ہے تو کشمیری کبھی بھی بھارت کو کشمیر ہضم نہیں کرنے دینگے۔