کراچی: (تجزیہ: عابد حسین) صوبہ سندھ کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو رواں ہفتے کراچی کے ایک سرکاری اور تاریخی مقام فریئر گارڈن میں قائم محکمہ پارکس کے دفتر سے نیب کے ہاتھوں ایک سابق ڈی جی پارکس لیاقت علی قائم خانی اور اسلام آباد سے سندھ کی اہم سیاسی شخصیت خورشید شاہ کی گرفتاری نے سندھ کی سیاست کو نئے رُخ پر ڈالنے کا آغاز کر دیا ہے۔ ان دونوں گرفتاریوں میں کچھ سیاسی اور کچھ انتظامی پیغامات چھپے ہوئے ہیں۔ لیاقت علی قائم خانی کی گرفتاری نے بلدیاتی حلقوں اور خورشید شاہ کی گرفتاری نے سیاسی حلقوں میں بے چینی پھیلا دی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی نے خورشید شاہ کی گرفتاری کو سیاسی اور انتقامی کارروائی قرار دیا ہے جبکہ میئر کراچی وسیم اختر کو یہ وضاحت کرنی پڑی کہ لیاقت علی ان کے باقاعدہ 'مشی' نہیں البتہ ان کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کیلئے 'مشورے' لیے جاتے تھے۔ سیاسی مبصرین نے اس وضاحت پر حیرت کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس وضاحت میں ہی کئی سوالات چھپے ہوئے ہیں۔
نیب کی ٹیم نے لیاقت علی قائم خانی کی گرفتاری کے بعد ان کی موجودگی میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور وہاں سے ایک ہی وقت میں جو کچھ برآمد ہوا وہ ناقابل بیان ہے جبکہ ابھی دوسری تجوری باقی ہے۔ عوام محو حیرت ہیں کہ ایک سابق ڈی جی پارکس کے گھر اتنی ہریالی اور شہر کے پارکس میں اتنا اجاڑ آخر یہ پیسہ کس کا ہے؟۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق لیاقت علی کا کہنا ہے کہ وہ زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ اثاثے اسی گھرانے کی وجہ سے ہیں۔ بہرحال تفتیش کا عمل ابھی جاری ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ؟ اسی ہفتے میئر کراچی وسیم اختر نے دبئی پہنچ کر سابق صدر پرویز مشرف اور سابق گورنر عشرت العباد سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ ان ملاقاتوں کو سیاسی مبصرین نے اہم قرار دیتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ سندھ میں اگلے سال ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے قبل ایم کیو ایم نے کوئی حکمت عملی بنانا شروع کر دی ہے تاہم ایم کیو ایم کے اندرونی ذرائع نے اسے خام خیالی قرار دیا ہے۔
تحریک انصاف کے حلقوں کے مطابق اس مرتبہ بلدیاتی انتخابات میں ان کی جماعت کو اہمیت ملے گی کیونکہ پیپلز پارٹی نے صوبے کو کھنڈر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور متحدہ قومی موومنٹ سے بھی شہری بدظن ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے حلقوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے عوامی نمائندے بھی شہر اور صوبے کیلئے کچھ نہیں کرسکے اور خواہ مخواہ امیدیں باندھیں بیٹھے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اندرون سندھ بھٹو زندہ ہے اور شہری علاقوں میں مفرور قیادت کسی وقت بھی جادو کی چھڑی چلاسکتی ہے۔ سابق گورنر عشرت العباد کی صورت میں ایم کیو ایم کا کوئی نیا دھڑا متعارف بھی ہوسکتا ہے کیونکہ وہ دوران گورنری کئی حلقوں کیلئے قابل قبول اور بہترین انتظامی صلاحیت کے ساتھ ساتھ بہترین کوآرڈینیٹر بھی ثابت ہوئے ہیں۔ ان کے کراچی کیلئے حالیہ بیانات میں بھی مل جل کر کام کرنے کا پیغام چھپا ہوا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ منقسم متحدہ کو اکٹھا کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوگیا ہے۔
رواں ہفتے کراچی کے شہریوں کو اچھی خبر یہ ملی کہ کھنڈر بنے شہر، گندگی کے ڈھیروں اور اُبلتے گٹروں نے آخر کار صوبائی حکومت کی توجہ حاصل کرلی۔ یہی حکومت گذشتہ کئی سال سے بلدیاتی مسائل سے یہ کہہ کر جان چھڑا رہی تھی کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے، ڈی ایم سیز کا کام ہے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اب بھی یہی کہہ رہے ہیں لیکن اب کام کرنے پر مجبور بھی ہوگئے ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو باور کرا دیا ہے کہ عوامی مسائل کا حل تلاش کرنا حکومت کا ہی کام ہوتا ہے کچرا سیاست پائیدار نہیں ہوتی اور اسے دم توڑنا ہی ہوتا ہے۔
پیپلز پارٹی نے صفائی مہم شروع کر کے کراچی کو کھنڈر اور گندگی کا ڈھیر بنانے کی اخلاقی ذمہ داری قبول کر کے اچھا ثبوت دیا ہے۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے نام پر چینی کمپنی کو دئیے جانے والے ٹھیکوں کی منسوخی اور ایم ڈی کی تبدیلی ظاہر کر رہی ہے کہ ماضی میں دال میں کچھ کالا تھا جس کا احسا س ہوتے ہی اب صفائی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو بھی وزیر اعلیٰ کے فعال ہوتے ہی 3 سال بعد اپنے ہی کھلے ہوئے مین ہولز میں گرنے والے پتھروں کی صفائی کا خیال آگیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور واٹر بورڈ حکام کا کہنا ہے کہ سیاسی مخالفین نے جان بوجھ کر مین ہولز بند کیے اور ان میں اینٹیں ڈال دیں جبکہ واٹر بورڈ کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ پتھر اور اینٹیں وہ ہوسکتی ہیں جو عام طور پر شہریوں کی جانب سے راہگیروں کی رہنمائی کیلئے کھلے ہوئے مین ہولز کے کناروں پر رکھ دی جاتی ہیں تاکہ پیدل یا موٹر سائیکل سوار اس میں گر کر زخمی نہ ہوجائیں تاہم ایسا ہونا ضروری بھی نہیں ہے اسی لیے صوبائی وزیر سعید غنی نے مین ہولز بند کرنے والے عناصر کی نشاندہی پر انعام دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ دوسری جانب شہری حلقوں نے بھی سوال کیا ہے کہ محض چند مقامات سے اینٹیں نکال لینے اور الزام تراشی سے کیا شہر کا مسئلہ حل ہوجائیگا ؟۔
کراچی کے ہی مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے سندھ کی پسماندگی کو معاشی دہشتگردی سے تعبیر کیا ہے۔ ہیلتھ ایشیا نمائش سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پورے ملک کو ریونیو کما کر دینے والے شہر کراچی کی ترقی کیلئے 5 فیصد رقم بھی نہیں دی جا رہی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ایک جانب وزیر اعلیٰ وفاق سے اور دوسری جانب میئر کراچی صوبے سے اپنا حق مانگ رہے ہیں، درمیان میں بے چارے عوام مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں۔ تبدیلی کا نعرہ لگا کر برسراقتدار آنے والی پارٹی پی ٹی آئی ابھی تک کراچی کی ترقی کیلئے کچھ نہیں کرسکی۔ اس پارٹی کے بعض ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی میں خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ عوام کے سامنے جانے سے گریز کرنے لگے ہیں کیونکہ عوام کو اپنے بنیادی مسائل کا حل چاہیے انہیں آئی ایم ایف یا ایف بی آر کی طویل المدت پالیسی سے نہیں بلکہ روز مرہ کے مسائل کے حل سے دلچسپی ہوتی ہے۔ بعض ارکان اسمبلی کا یہ تک کہنا ہے کہ کراچی میں کئی سرکاری اسکول بند پڑے ہیں، ہیلتھ یونٹس میں علاج دستیاب نہیں۔ آوارہ کتے عوام کو کاٹتے پھر رہے ہیں، مہنگائی کے دور میں عوام کو سرکاری مراکز صحت میں دوا اور علاج چاہیے لیکن انہیں دھکے مل رہے ہیں اگر منتخب نمائندے یہ مسائل حل نہ کرا سکے تو ان کا عوام میں دوبارہ جانا مشکل ہو جائیگا۔
اس ہفتے جاری سندھ اسمبلی کے اجلاس میں معمول کی کارروائیوں کا غلبہ رہا۔سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے پرائیویٹ ممبرز ڈے کے موقع پر ارکان اسمبلی کو تقاریر کا موقع دیا ۔پاکستان اسٹیل کے موضوع پر رکن سندھ اسمبلی عبدالرشید کی تحریک التوا ء بحث کیلئے منظور کرلی گئی جس پر مزید گفتگو اب کل(جمعے)کے اجلاس میں ہوگی۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اسٹیل کے معاملات حساس نوعیت اختیار کرچکے ہیں، ریٹائر ڈملازمین اپنے واجبات ملنے کے منتظر ہیں ۔ان ملازمین کا کہنا ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں کے باوجود وفاقی حکومت ملازمین کے فنڈز روکے بیٹھی ہے جس کے باعث کئی گھرانوں میں فاقوں کی نوبت ہے اور ریٹائرڈ افراد بیمار ہوکر دنیا سے رخصت ہورہے ہیں۔دیکھتے ہیں سندھ اسمبلی بحث کے بعد کیا نتیجہ نکالتی ہے۔