شیخ رشید ملک کے سیاسی حالات سے باخبر، ریلوے سے لاعلم

Last Updated On 01 November,2019 08:33 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیزگام کی بوگیوں میں آگ لگنے کے نتیجہ میں 74 افراد کے جاں بحق ہونے کے واقعہ نے جہاں ملک بھر میں تشویش اور رنج و غم کی لہر دوڑا دی ہے وہاں خود ریلوے کی وزارت اور اس کی ذمہ داریوں پر بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دیا۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے اس بات پر زور دیتے نظر آ رہے ہیں کہ غلطی مسافروں کی ہے جنہوں نے بوگی کے اندر چولہا جلایا، یہ بات تو تحقیقات کی صورت میں سامنے آئے گی کہ آگ کسی چولہے کے جلنے سے لگی یا بوگی کے اندر شارٹ سرکٹ کی وجہ سے، البتہ خود وزیراعظم عمران خان کے آگے یہ سوال ضرور آ کھڑا ہوا ہے لہذا واقعہ کے بعد وفاقی وزیر شیخ رشید کی صلاحیت کا سوال اٹھ رہے ہیں۔

وزیر ریلوے کے پہلے 14 ماہ میں پاکستان ریلویز کو 80 چھوٹے اور بڑے حادثات پیش آئے۔ جس میں سینکڑوں جانیں چلی گئیں ہیں اور محکمہ ریلوے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ ظاہر ہے اس طرح کے واقعات پاکستان ریلویز کی بچی کھچی ساکھ کو مزید تباہ کرنے کیلئے کافی ہیں۔ اس صورتحال میں کچھ سوالات پیدا ہوئے ہیں کہ کیا وزیراعظم اس حادثے پر ٹویٹ کر کے بری الذمہ ہوئے ہیں ؟ یا وہ اس حادثے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے وزیر ریلوے سے استعفیٰ لیتے ہیں؟۔

وزیر ریلوے بہت سرگرم سیاستدان ہیں۔ ملک کی سیاست میں ہر وقت اتار چڑھاؤ کیلئے ان کی کوششیں دیدنی ہوتی ہیں ۔ انہیں ہر معاملے کی خبر ہوتی ہے، مگر گمان یہ ہو رہا ہے کہ انہیں پاکستان ریلوے کے علاوہ تمام امور پر مہارت حاصل ہے۔ سارا سارا دن وہ میڈیا کے سامنے اپنی دکان چمکاتے رہتے ہیں۔ کشمیر سے لیکر فلسطین اور افغانستان سے لیکر ہندوستان تک کے معاملات پر لب کشائی کرتے رہتے ہیں۔ حکومت احتساب اور اپوزیشن کی پریشانی کی انہیں لمحہ بہ لمحہ خبر ہوتی ہے۔ کون، کب ، کیسے ، کہاں، کس سے ڈیل کر رہا ہے، انہیں سب خبر ہوتی ہے۔ اگر انہیں نہیں پتہ تو صرف یہ نہیں پتہ کہ ریلوے کے حالات کیا ہیں ؟ اس ریلوے کو تمام تر بحران اور خرابی کے باوجود خواجہ سعد رفیق ایک بہتر قومی محکمہ کے طور پر بنانے اور پیش کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ ان سے ہزار اختلاف ہو سکتے ہیں ، مگر پاکستان ریلوے کی ساکھ، اس کی ٹائمنگ، اس کا خسارہ ختم کر کے اسے منافع کی طرف لیکر آئے تھے۔ مگر افسوس تبدیلی کے جھنڈے کے نیچے ریلوے کی وزارت ایک ایسے شخص کو دے دی گئی جسے خود ساختہ زعم ہے کہ اسے پاکستان کے تمام مسائل کا علم ہے اور وہ قوم کے درد کو اپنا دردِ دل سمجھتے ہیں۔

شیخ رشید کا کوئی اور محکمہ ہو سکتا ہے مگر ریلوے چلانا ان کے بس کی بات نہیں رہی۔ بہتر ہو گا وزیراعظم ان سے استعفیٰ طلب کریں، اگر وہ زیادہ اہم اتحادی ہیں تو انہیں اطلاعات کے شعبے پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع دیا جائے۔ ان کے دور میں پاکستان ریلوے نے کئی نئے روٹ اور نئی ٹرینیں شروع کی ہیں۔ مگر اصل واقعہ یہ ہے کہ پہلے سے چلنے والی ٹرینوں کی بوگیاں اور انجن اتار کر نئی ٹرینیں چلائی گئیں۔ جس کی وجہ سے آئے روز پورے پاکستان میں ٹرینیں لیٹ ہو رہی ہیں۔ کہیں بوگی ہے تو انجن نہیں اور اگر انجن میسر آ جائے تو پھر اسے بوگیاں میسر نہیں ہیں۔ گزشتہ چودہ ماہ میں 80 حادثات ایک خوفناک رجحان ہے۔ وزیراعظم اس کا نوٹس لیں کہ یہ تبدیلی نہیں بلکہ ایک سونامی ہے جو پاکستان کا بہترین اثاثہ ریلویز کی ساکھ کو بہا لے جائے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وزیراعظم پسند نا پسند اور سیاسی مجبوریوں سے ہٹ کر فیصلے کریں، وہ خود خواجہ سعد رفیق سے ریلوے حادثوں پر استعفیٰ طلب کرتے تھے اور مہذب معاشروں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے تھے۔ لہٰذا وزیراعظم اپنے کہے الفاظ کا پاس اور بھرم رکھیں، شیخ رشید سے فوری استعفیٰ لیں تاکہ ایک آزادانہ انکوائری اس تمام واقعے کی شفاف تحقیقات کرے۔ وزیراعظم بارہا فرماتے رہے ہیں کہ متعلقہ وزیر کے ماتحت کیسے آزادانہ تحقیقات ممکن ہیں ؟ وزیر ریلوے نے کمال ڈھٹائی اور سفاکی سے حادثے کی ذمہ داری مسافروں پر ڈالنے کی کوشش کی۔

وزیر ریلوے نے حادثے کے بعد اپنی وزارت سے کچھ جلے ہوئے زخمی مریضوں کے بیانات مختلف صحافیوں کو بھجوائے تا کہ اس حوالے سے عوامی رد عمل کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ تحقیقات سے پہلے ایک خاص فضا بنانا ہے اور اس عمل پر شروع ہونے سے پہلے رائے سازی کرنا ہے۔ قوم وزیراعظم اور ریلوے حکام سے پوچھنا چاہتی ہے کہ کیا اس کی تحقیقات بھی ماضی کا کوئی بھولا بسرا قصہ بن جائے گی۔ کیونکہ نئے پاکستان کا چال چلن یہی ہے کہ سانحہ ساہیوال کے معصوم بچوں کو بھول کر ملزموں کو بے گناہ قرار دیا جائے۔ درست دماغی توازن نہ رکھنے والے صلاح الدین کے ورثا نے پولیس کو معاف کر دیا تو خدشہ یہی ہے کہ قوم جونہی اس سانحہ کو بھولے گی واقعے میں ذمہ داران کی فائل بھی کلیئر ہو جائے گی۔