لاہور: (سلمان غنی) سیاسی بحران ختم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہا ہے اور اس عمل کی وجہ سے ملک کی داخلی سلامتی اور معاشی و سیاسی استحکام کی منزل قریب آنے کی بجائے دور ہوتی جا رہی ہے۔
سیاسی قیادتوں جن میں خاص طور پر حکومتی جماعت یا ان کے اتحادی شامل ہیں کی بڑی ذمہ داری یہ بنتی تھی کہ وہ دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت کے ساتھ ملک کے جاری سیاسی و معاشی بحران کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی لیکن حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان جو بڑی خلیج ہے اس کی وجہ سے معاملات آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف جارہے ہیں او ریہی وہ بحران ہے جو اس وقت ملکی سیاست کو درپیش ہے ۔ حکومت کی کوشش ہے کہ آزادی مارچ کو سیاسی اندازمیں حل کرے اوربڑے بحران سے ٹلا جائے ۔ مگر مولانا کے سیاسی تیو رکافی سخت ہیں اور لگتا نہیں ہے کہ وہ آسانی سے حکومت کے سامنے جھکیں گے ۔ اب مولانا پلان بی کے تحت آگے بڑھیں گے او ر دیکھنا ہوگا کہ ان کا پلان بی صرف ان کی جماعت کا ہی ہوگا یا اس میں پوری اپوزیشن جماعتیں شامل ہونگی ۔ کیونکہ اس وقت جو آزاری مارچ ہے وہ جے یو آئی کا ہے او راس میں دیگر جماعتوں کی وہ جھلک نظر نہیں آتی جو متحدہ اپوزیشن کے کردار کو نمایاں کرسکے ۔ پلان بی کی بنیاد پر متحد ہ اپوزیشن کا کردار سامنے آئے گا ۔ جہاں تک مولانا کی جانب سے وزیر اعظم کے استعفیٰ یا ملک میں نئے انتخابات کا فوری مطالبہ تھا اس کے امکانات بہت کم ہیں ۔ مولانا کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ جے یو آئی کی تحریک کو کیسے متحدہ اپوزیشن کی بڑی تحریک میں تبدیل کریں گے ۔ کیونکہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ متحدہ اپوزیشن میں پیپلز پارٹی او رمسلم لیگ( ن) ایک حد تک مولانا کے ساتھ کھڑے ہیں او رایک حد سے زیادہ آگے بڑھنے کیلئے تیار نہیں ۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی او ر مسلم لیگ( ن) سمجھتی ہیں کہ اگر چہ ہم نے حکومت کیخلاف تحریک چلانی ہے لیکن اس کے نتیجے میں ملک کا سیاسی او رجمہوری نظام بھی اہم ہے او رہمیں ایسے کسی اقدام کی طرف نہیں بڑھنا چاہیے جو جمہوری عمل یا جمہوری نظام کو ختم کردے ۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) سیاسی محاذ پر کافی احتیاط کا مظاہرہ کررہی ہیں او رکسی بڑے اقدام کے حق میں نظر نہیں آتیں ۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ متحدہ اپوزیشن او رخاص طور پر مولانا نے حکومت کو دفاعی پوزیشن پر کھڑا کردیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کومذاکراتی کمیٹی بنانی پڑی اور حکومت کے لب ولہجہ میں بھی کافی نرمی دیکھنے کو ملی ماسوائے چند ایک وزیروں کے جو ماحول کو بگاڑتے ہیں ۔ لیکن یہاں چودھری برادران کا بھی کردار بن رہا ہے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس مولانا کو سیاسی طور پر دینے کیلئے کیا ہے یہ صورتحال ڈیڈ لاک کی بھی نشاندہی کررہی ہے۔
دوسری جانب نواز شریف کی بیماری کا معاملہ اہم ہوگیا ہے اگرچہ حکومت نے تاثر دیا ہے کہ وہ نواز شریف کی بیماری کی صورت میں باہر جانے پر کوئی اعتراض نہیں کریگی لیکن یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ نواز شریف او ر اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کو ئی خفیہ ڈیل ہوئی ہے ۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ نواز شریف کی حمایت میں اگر کوئی فیصلہ کیا جائیگا تو اس کی بنیاد سیاسی نہیں بلکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہوگا ۔ شریف خاندان یا مسلم لیگ ( ن) کے مطابق اگر ہم نے ڈیل کرنی ہی تھی تو نواز شریف مشکل حالات میں ملک میں واپس کیوں آتے ۔ کہا جارہا ہے کہ نواز شریف واقعی باہر نہیں جانا چاہتے تھے لیکن ڈاکٹرز کی ہدایت اور خاندانی دبائو کی بنیاد پر ان کو باہر جانے کا فیصلہ کرنا پڑا ۔ ابتداء میں ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے حوالے سے جو مسائل سامنے آئے وہ اچھے نہیں ا س سے حکومت کی نیک نامی میں اضافہ نہیں ہورہااو یہ تاثر اُبھرا ہے کہ حکومت نواز شریف کی صحت پر سیاست کررہی ہے او ر دوسروں پر ذمہ داری ڈا ل کر خود کو بچانا چاہتی ہے ۔جو کام حکومت یا وزیر اعظم کا تھا اس کو کابینہ اور پھر اس کی ذیلی کمیٹی میں ڈال کر نواز شریف کو ذہنی طو رپر اذیت دی جارہی ہے ۔ نواز شریف نے فوری طور پر شرائط کی بنیاد پر باہر علاج کیلئے انکار کردیاہے ۔ اب دیکھنا ہوگا کہ حکومت کیا حتمی فیصلہ کرتی ہے ۔حالانکہ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے وزیر اعظم او ر حکومت کو بہتر مشورہ دیا کہ وہ نواز شریف کی بیماری پر کوئی سیاست نہ کرے اور خود سے پہل کرکے ان کے باہر جانے کے انتظامات یقینی بنائے کیونکہ ان کی بیماری سنجید ہ معاملہ ہے او راس پر کوئی رکاوٹ یا سیاست نہیں ہونی چاہیے ۔لیکن کابینہ کے بہت سے وزیر بلاوجہ سیاسی ماحول کو بیان بازی سے خراب کررہے ہیں اور وزیر اعظم کی ہدایت کے باوجود نواز شریف کی بیماری کا سیاسی مذاق اڑایا جارہا ہے ۔ مسلم لیگ( ن) اس وقت مشکل میں ہے اس کے لیے اپنے قائد کی بیماری بڑا مسئلہ ہے اور وہ اس پر کوئی سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ مریم نواز نے بھی کہا ہے کہ ان کے سامنے پہلی ترجیح والد کی بیماری ہے اس کے بعد سیاست ہوگی ۔ مریم نواز والد کی بیماری کے حوالے سے خود ان کے ساتھ جانا چاہتی ہیں لیکن یہ فیصلہ عدالت نے کرنا ہے کہ وہ ان کوکب تک ریلیف دیتی ہے ۔ بہرحال اس وقت مسلم لیگ( ن) کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ نواز شریف نے ڈیل کرلی ہے ۔ اصل میں نواز شریف کے معاملے میں خود حکومت مشکل میں ہے اور وہ چاہتی ہے کہ ذمہ داری اس پر نہ پڑے اور جو بھی فیصلہ ہوناہے وہ عدالت کرے تاکہ حکومت سیاسی طور پر اپنا دفاع کرسکے کہ وہ نواز شریف کو ریلیف نہیں دے رہی بلکہ یہ ریلیف عدالت نے دیا ہے اور ہم عدالت کے فیصلے کی پاسداری کررہے ہیں۔
شہباز شریف کی کوشش ہے کہ وہ کسی بھی طرح پارٹی کو یکجا کرسکیں اور جو پارٹی کے معاملات ہیں اس میں نواز شریف کی ہدایت پر پارٹی کو بہتر طور پر چلایا جاسکے ۔ شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ اس وقت بہت سے لوگ پارٹی کو کمزور کرنے کی کوشش کررہے ہیں او ر ایسے موقع پر ہماری اصل طاقت ہی پارٹی کو مضبوط رکھنا ہے ۔ویسے بھی نواز شریف کی غیر موجودگی میں شہباز شریف یا مریم نواز کو ہی عملی طور پر پارٹی چلانی ہے ۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے حکومت کو اپنی سیاسی پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جس انداز سے حکومت کو چلایا جارہا ہے او رجیسے اپوزیشن جماعتوں کو سیاسی دیوار سے لگانے کی حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے اس سے خود حکومت کیلئے بھی مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔