لاہور: (دنیا نیوز) معروف تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ کبھی عدالتوں میں زیر بحث نہیں آیا۔
پروگرام تھنک ٹینک میں میزبان عائشہ ناز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ اس حوالے سے قانون سازی کی جائے۔ پتا نہیں پارلیمنٹ میں کیا تماشا لگے گا، طرح طرح کی باتیں ہوں گی۔ انھوں نے عدالتی فیصلے کے بعد وزیر اعظم کے بیان پر کہا کہ انھیں کم از کم اپنے خیالات پر کنٹرول کرنا چاہئے، یہ بچگانہ باتیں ہیں ایسے نازک موقع پر اس قسم کی گفتگو حیران کن ہے۔
سیاسی تجزیہ کار، روزنامہ دنیا کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اپنی بنیادی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے، وہ اصل مسائل سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں، انھیں معیشت چلانی ہے اور ملکی مسائل کا حل تلاش کرنا ہے مگر وہ ایک نیا بحران پیدا کر رہے ہیں، دوسری طرف اس معاملے میں اپوزیشن کا رول بہت مثبت رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن پارلیمنٹ میں سنجیدگی اختیار کریں اس وقت دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں حکومتی ٹیم کی کارکردگی کی تحقیقات ہونی چاہئے۔
تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ نوٹیفکیشن کے حوالے سے کیسے کیسے کمالات سامنے آئے مثال کے طور پر 19 اگست کو وزیر اعظم کے دستخط سے آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جو غلط تھا۔ سینئر بیوروکریٹ اپنے وسیع تجربے کی بنیاد پر ایسے کام کر رہے ہیں، سپریم کورٹ نے اب سارا معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 6 ماہ کی توسیع دے کر سپریم کورٹ نے ایک راستہ دیا ہے، قانون سازی کر کے آرمی چیف کو 3 سال کے لئے توسیع دی جاسکتی ہے۔
اسلام آباد سے دنیا نیوز کے بیورو چیف خاور گھمن نے کہا کہ ہمیں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ انھوں نے آرمی چیف کی توسیع کے خلاف دائر ہونے والی پٹیشن کی سماعت کی، آرمی چیف کے دوبارہ تقرر اور ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے آئین خاموش ہے اور آرمی ایکٹ میں بھی ابہام ہے، چیف جسٹس نے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر قانون سازی کرے۔ ان کا کہنا تھا اس معاملے پر قانون میں ترمیم کے لئے دو تہائی ارکان سے بھی زیادہ ووٹ مل جائیں گے۔