لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی ) پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے اندر اور باہر پیش آنے والے واقعات اور ہسپتال میں ہونے والی بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ کے عمل نے ایک مرتبہ پھر پنجاب میں حکومتی رٹ اور خصوصاً قانون کی بالادستی کے آگے بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ گھنٹوں قانون کے چیتھڑے اڑانے کا عمل جاری رہا۔ قانون حرکت میں آیا اور نہ ہی ہسپتال کے اندر دل کے مریضوں کی دادرسی کیلئے کوئی پہنچا۔
وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان ہسپتال کے باہر پہنچے تو وہ بھی وکلا گردی کی زد میں آ گئے اور ان کیساتھ مار پیٹ اور بال کھینچنے تک نوبت جا پہنچی۔ وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد سے بھی اچھا سلوک نہ ہوا لہٰذا مذکورہ اندوہناک عمل کے حوالہ سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تنازع وکلا ڈاکٹرز کے درمیان کھلی جنگ میں کیوں تبدیل ہوا۔ وکلا آخر کب تک قانون پر اثراندا ز ہونے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ پولیس مذکورہ واقعہ میں کیونکر خاموش تماشائی بنی رہی۔ بحیثیت معاشرہ ہم کس حد تک اخلاقی زوال کا شکار ہو چکے ہیں اور ہماری حکومتیں کیونکر مظاہرین کے سامنے بے بس بنی نظر آتی ہیں۔ کیا اس طرح کے واقعات کا سدباب ہو سکے گا۔
دنیا کے مہذب اور جمہوری معاشروں میں انسانیت کے حوالے سے ڈاکٹروں اور قانون و آئین کی بالادستی کے حوالہ سے وکلا کا کردار ہمیشہ مسلمہ رہا ہے اور ان کی جانب سے آپے سے باہر ہونے کا تصور ہی محال ہے مگر ہمارے ہاں جب سے ینگ ڈاکٹرز اور ینگ لائرز کا تصور سامنے آیا ہے تب سے تشدد کے واقعات قانون پر اثر انداز ہونے کا رجحان اور خود اپنے پیشوں کی بدنامی کا عمل سامنے آرہا ہے جس سے دونوں کمیونٹیز کی بڑی تعداد ان کے ان اعمال پر پریشان اور شرمسار نظر آتی ہے۔ آئے روز اعلیٰ پولیس افسران بار رومز میں جا کر ایف آئی آرز اور چالان کاٹنے کی معذرت کر رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس صورتحال اور انتظامی بے شرمی کا لامحالہ نتیجہ یہی نکلنا تھا جو نکلا ہے۔
اس ساری صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس وقوعہ کا ایک پس منظر تھا، انتظامیہ کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ یہ لڑائی مزید بڑھے گی۔ پرسوں سے وکلا سینکڑوں کی تعداد میں لڑائی کی تیاری کر رہے تھے مگر ضلعی انتظامیہ شہری پولیس اور اس کی قیادت سمیت حساس ادارے بھی اس تیاری سے یا تو لاعلم رہے یا مکمل طور پر بے خبر رہے۔ مت بھولیے کہ یہ صورتحال تب ہوئی جب پنجاب میں آئی جی پولیس اور چیف سیکرٹری بدلے جا چکے ہیں اور وزیراعظم کے بقول تبدیلی شروع ہو چکی اور آج پی آئی سی میں توڑ پھوڑ اور لاقانونیت کا سونامی آ چکا ہے۔ اس واقعے سے پنجاب میں گورننس کی اصل صورتحال کھل کر سامنے آئی ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے انتظامی جوہر بھی بے نقاب ہو گئے ہیں۔ حکومتی رٹ کہاں ہے ؟ کیا اس سلگتے سوال کا جواب وزیراعظم اور تحریک انصاف کے پاس ہے ؟ کیا کبھی ہم نے ہسپتال پر حملے کا تصور بھی کیا تھا ؟۔
مجھے سب سے زیادہ پریشانی کا عنصر یہ لگا ہے کہ شروع میں پولیس خاموش تماشائی بنی کھڑی رہی، بحیثیت قوم ہم کس طرح کے اخلاقی زوال کا شکار ہو بیٹھے ہیں کہ اخلاقی پستی اور جہالت کے راج میں ہم پاتال تک پہنچ چکے ہیں۔ اگر یہ مہذب معاشرہ اور زندہ و بیدار شہریوں کا معاشرہ ہوتا تو سوچیے کس کو جرات ہوتی کہ ایک حساس ترین ہسپتال پر حملہ کرے۔ آپ دنیا بھر کی جنگوں کی تاریخ پڑھیے مگر ہسپتالوں اور مریضوں کے حقوق کا تو دشمن ملک بھی خیال رکھتے ہیں۔ اس صورتحال کو تمام سنجیدہ طبقات نے مل کر نہ روکا تو پھر اس سے آگے کی صورتحال کو انارکی کہتے ہیں اور وہ ریاستیں شام، لیبیا، صومالیہ یا عراق بن جاتی ہیں۔ ہم ایک ذمہ دار ریاست ہیں، نیوکلیئر پاور ہمارے پاس ہے، دنیا کا بہترین فوجی ادارہ ہمیں نصیب ہے اور بہت ضروری ہو چکا ہے اب ہم اس صورتحال سے ہمیشہ کیلئے نکلیں ورنہ نتائج بہت خوفناک ہوں گے۔