اسلام آباد: (طارق عزیز) وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی طرف سے باپ کے وزراء اور مشیروں کے محکموں میں تبدیلی سے باغی گروپ ان کے خلاف متحرک ہو گیا، وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے امکانات واضح ہوتے نظر آ رہے ہیں، کسی بھی وقت اپ سیٹ ہو سکتا ہے، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا کردار اہم ہو گا۔
رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال جو بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں ان سے ناراض پارٹی سمیت دیگر اتحادی ارکان اسمبلی کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، وزیراعلیٰ نے حال ہی میں وزیر صحت نصیب اللہ مری سے قلمدان واپس لے لیا ہے، باپ سے ہی پارلیمانی سیکرٹری برائے خوراک مبین خلجی کو سرکاری عہدہ سے ہٹا دیا گیا، مشیر محمد خان لہڑی سے ہیلتھ اور ایجوکیشن کے محکمے واپس لئے گئے جبکہ وزراء صالح بھوتانی، عمر جمالی سے وزیراعلیٰ خوش نہیں، سابق وزیراعظم ظفراللہ جمالی کے بیٹے عمر جمالی ٹرانسپورٹ کا محکمہ ملنے پر نالاں ہیں، انہوں نے محکمے کی تبدیلی کیلئے کئی بار وزیراعلیٰ سے درخواست کی ہے لیکن شنوائی نہیں ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال کیخلاف باپ کے اندر سے بغاوت کے امکانات ہیں، تحریک انصاف کے صوبائی صدر یار محمد رند وزیراعظم عمران خان کو جام کمال کے ہٹانے کی تجویز دے چکے ہیں۔ اے این پی، ہزارہ ڈیموکریٹک کے پاس الائنس بالترتیب 4 اور تین ایم پی ایز ہیں، دونوں جماعتیں پسند کی وزارتیں اور محکمے نہ ملنے پر وزیراعلیٰ سے ناراض ہیں، اہم بات یہ ہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی جو مقتدر حلقوں کے کافی قریب ہیں، وہ اور وزیراعلیٰ جام کمال ایک صفحہ پر نہیں ہیں۔
تبدیلی کے خواہاں وزیراعظم کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ باپ کے اندر سے نیا وزیراعلیٰ لایا جائے، اس شرط پر اختر مینگل بھی حکومت میں شمولیت پر راضی ہو جائیں گے، اس صورت میں نئے وزیراعلیٰ کو جے یو آئی کے سوا تمام جماعتوں گروپس کی حمایت حاصل ہو جائے گی اور بلوچستان میں مستحکم حکومت قائم ہو سکتی ہے، سابق سپیکر جان جمالی بھی وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف ہیں، باپ کے اندر باغی گروپ کو ان کی بھی حمایت حاصل ہے، باپ کے کوئٹہ سے وفاقی کابینہ میں مزید ایک وزیر بنانے کے معاملہ پر بھی جام کمال اور صادق سنجرانی کے درمیان اختلاف موجود ہے، وزیراعلیٰ سینیٹر انوارالحق کاکڑ جبکہ چیئرمین سینیٹ سینیٹر احمد خان کو وزیر بنوانا چاہتے ہیں۔