اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا ہے کہ اگر پارلیمان چھ ماہ میں قانون سازی نہ کر سکی تو موجودہ آرمی چیف ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔
43 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت آرٹیکل 243 کے دائرہ کار کا تعین کرے۔ آرمی چیف کی موجودہ تقرری بھی مجوزہ قانون سازی سے مشروط ہوگی اور ان کی مدت کا تعین کرے گی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان آرمی ایکٹ کے اندر آرمی جنرل کی مدت اور توسیع کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اداراتی روایات کے مطابق جنرل 3 سال کی میعاد پوری ہونے پر ریٹائر ہو جاتا ہے۔ اداراتی روایات قوانین کا متبادل نہیں ہو سکتیں۔ منتخب نمائندے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے نیا قانون بنائیں جس سے ہمیشہ کیلئے آرمی چیف کی پیش گوئی ممکن ہو سکے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلے کے آخر میں اضافی نوٹ میں 1616ء میں چیف جسٹس آف انگلینڈ کے فیصلے کا حوالہ اور کہا کہ آپ جس قدر بھی طاقتور کیوں نہ ہوں، قانون آپ سے بالاتر ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے لکھا کہ آرمی چیف کے آئینی عہدے کی مدت کو غیر ریگولیٹڈ نہیں چھوڑا جا سکتا۔ آرمی چیف کی ملازمت کے قواعد بنانے سے بہت سی تاریخی غلطیوں کو درست کیا جا سکتا ہے۔ قواعد بنانے سے عوام کے منتخب نمائندوں کا اقتدار اعلیٰ مضبوط ہوگا۔