راولپنڈی: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور کا کہنا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل مشرف کے خلاف عدالتی فیصلہ 2007ء کاتسلسل ہے، سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کیخلاف ریفرنس کے بعد عدالت و مشرف کے مابین معاملہ خراب ہوا۔ ادارے اپنی آئینی حدود و قیود کا خیال رکھے۔
سابق صدر کے عدالتی فیصلے کے بعد رد عمل دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی ہے کہ وہ ریفرنس ٹیک اپ ہی نہیں ہوا، اس کو سنا جانا چاہئے تھا، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیخلاف ریفرنس ہو یا آرمی چیف کی توسیع کا معاملہ یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اداروں میں تصادم ملک کو انتشار و انارکی کی طرف لے جائے گا، ادارے اپنی آئینی حدود و قیود کا خیال رکھے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار سپریم کورٹ نے دیا تھا، مشرف نے جو کچھ کیا اسکا اختیار بھی سپریم کورٹ نے دیا تھا، سابق صدر نے اسی اختیار کے تحت سابق چیف جسٹس کیخلاف ریفرنس دائر کیا تھا۔
غلام سرور کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے مشرف کی ایمرجنسی کی توثیق کی لیکن ریفرنس دائرکرنے پرخلاف ہوئے، اگر ریفرنس غلط ہوتا تو اس کا بھی قانونی جائزہ لیتے۔
ان کا کہنا تھا کہ 16 دسمبر ملکی تاریخ میں اہم اور افسوسناک دن ہے، سولہ دسمبر کو پاکستان دولخت ہوا، سولہ دسمبر کو اے پی ایس سکول کا افسوسناک واقعہ پیش آیا، دو سانحات کا غم بھولے نہیں تھے کہ سترہ دسمبر کو یہ فیصلہ آیا اور انیس دسمبر کو اس کا حیران کن تفصیلی فیصلہ آیا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کیا عدالتی فیصلے سے ملک کی خدمت ہوئی یا ملک کو فائدہ ہوا؟ اس فیصلے سے ملک میں محاذ آرائی و انتشار بڑھا یا کم ہوا؟ آج اس فیصلے پر دشمن خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں، ایسے فیصلوں سے گریز کیا جائے جس سے دشمن خوش ہو۔