وزیر اعظم کی میڈیا پر تنقید، حکومتی قوت برداشت جواب دے رہی

Last Updated On 28 December,2019 07:34 pm

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) حکومتی ذمہ داران کی جانب سے مسلسل ملک کے اندر سرگرم مافیاز کے خلاف اقدامات اور انہیں انجام تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا جا رہا ہے۔ خصوصاً وزیراعظم عمران خان نے برسراقتدار آنے کے بعد جب یہ کہا کہ میں ملک میں ہر کرپٹ شخص کو جیلوں میں بند کروں گا اور مافیاز کو ان کے انجام تک پہنچاؤں گا تو پاکستان کے مسائل زدہ عوام نے ان کے اس عزم کاخیر مقدم کرتے ہوئے ان سے بہت سی توقعات قائم کر لیں لیکن اگر عملاً دیکھا جائے تو آج بھی مافیاز اپنے اپنے انداز میں سرگرم عمل ہیں، اتنا فرق ضرور پڑا ہے کہ رشوت کے ریٹ بڑھے ہیں۔

اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کے رجحان کے باعث عوام الناس کی زندگیاں اجیرن بنی ہیں۔ اشیائے خوردونوش کے حوالے سے ذخیرہ اندوز اور منافع خور نئے طریقہ واردات کے ساتھ سرگرم ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں کمی کے اعلانات کے باوجود کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ البتہ اب وزیراعظم عمران خان نے اخبارات میں بیٹھے مافیا کا ذکر کیا اور کہا ہے کہ ہر روز بری خبریں، کئی صحافی پرانے سسٹم سے پیسے بنا رہے تھے۔ ان کے اس ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ میڈیا کے کردار سے مطمئن نہیں اور نہیں چاہتے کہ میڈیا حکومت کی نااہلیوں اور عوام دشمن پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنائے لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا واقعتا میڈیا یا میڈیا کا کوئی عنصر حکومت کو ٹارگٹ کئے ہوئے ہے اور یہ کہ میڈیا کا اصل کردار کیا ہے اور کیا وہ اپنے اصل کردار سے ہٹ گیا ہے۔

کیا میڈیا اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہا اور یہ کہ میڈیا کا کام حکومتوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہے یا عوام کے ساتھ اور جمہوری معاشرے میں میڈیا کا کردار کیا ہونا چاہئے۔ سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں یہ سوچ اور روایت پروان ہی نہیں چڑھ سکی کہ حکمران بھی غلط ہو سکتے ہیں۔ ہمارا بڑا سیاسی المیہ یہ رہا ہے کہ جب اپوزیشن میں ہوں تو انہیں حکومت پر تنقید کرتا میڈیا بہت پسند آتا ہے اور جیسے ہی وہ حکمران بنتے ہیں تو وہی میڈیا انہیں برا لگنے لگتا ہے۔ تنقید کرنے والا ہر صحافی، کالم نگار، تجزیہ نگار انہیں بکاؤ مال لگتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان اپنے دور اپوزیشن میں آزاد میڈیا سے بہت محظوظ ہوتے رہے ہیں۔ آزاد میڈیا نے ان کی اور ان کی جماعت کی اڑان اور اٹھان میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور وہ میڈیا کی کارکردگی کو بہت سراہتے نظر آتے تھے لیکن نہ جانے جوں جوں ان کی حکومت قومی و عوامی مسائل کے حوالہ سے ایکسپوز ہوتی جا رہی ہے توں توں ان کا غصہ میڈیا پر اترنا شروع ہو گیا ہے۔ یہ سوچ ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کو میڈیا کا یہ کردار ہضم نہیں ہو پا رہا اور اس کے میڈیا کے حوالہ سے تحفظات ہیں۔ ان کے خیال میں ان پر تنقید صرف اس صورت میں ہوئی ہے جو خبر شائع کرنے والے نے رقم وصول کر رکھی ہو یا اسے حکومت سے دیگر وفاداریوں کے سبب پرخاش ہو۔ یہ نقطہ نظر جمہوریت اور سیاست کیلئے پریشان کن ہے ۔ البتہ اگر وزیراعظم عمران خان اور دیگر ذمہ داران یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا کے کچھ لوگ ایڈیٹر، کالم نویس یا اینکر کسی سے روپے پیسے لیکر حکومت کے خلاف لکھتے یا بولتے نظر آتے ہیں تو ان کے پاس سارے ذرائع موجود ہیں۔ انہیں میڈیا کے اندر کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنے کا خوشگوار فریضہ ادا کرنا چاہئے یہ خود میڈیا کی بھی خدمت ہوگی اور پاکستان میں جمہوریت اور سیاست کی مضبوطی کا باعث بھی ہوگا۔

پاکستانی میڈیا سے غلطی ہو سکتی ہے مگر یہ کہنا کہ میڈیا کسی کا زر خرید بن کر تحریک انصاف کی حکومت کو ٹارگٹ کر رہا ہے یہ درست نہیں۔ اگر وزیراعظم عمران خان کسی خاص میڈیا گروپ یا اس کی پالیسیوں کے خلاف ہیں یا ان کے ساتھ معاملات پر ان کے تحفظات ہیں تو وہ ضرور ان کے خلاف کارروائی کریں مگر پورے میڈیا کو ٹارگٹ کرنا درست نہیں۔ یہ میڈیا اس وقت بہت اچھا تھا جب 126 دنوں تک مسلسل وزیراعظم عمران خان کا دھرنا براہ راست دکھایا جاتا رہا اور اس کا کردار اس وقت اور زیادہ اہم تھا جب وزیراعظم مسند اقتدار پر پہنچنے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ۔ اب انہیں یہ میڈیا بے قابو نظر آتا ہے ۔ لگتا ہے کہ حکومت کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے۔ ہاں ایک زیادتی میڈیا نے کی ہے کہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے اہم ایشوز پر یوٹرن سے عوام کو آگاہ کیا اور بتایا کہ اپوزیشن میں وزیراعظم کا کیا کہنا تھا اور اب کا نقطہ نظر کیا ہے۔ ویسے بھی معاشرتی سطح پر دیکھا جائے تو ٹوکنے والا ہر شخص کسی کو اچھا نہیں لگتا۔

جب حکومت کے ہاتھوں کروڑوں عوام کی زندگیاں اجیرن بن رہی ہوں، گورننس کا خواب حقیقت نہ بنا ہو، روزگار کی فراہمی کی بجائے بے روزگاری کا طوفان آ رہا ہو تو پھر آزاد میڈیا کا یہی کام ہے کہ وہ حقائق سامنے لائے اور بتائے کہ اس میں اصل رکاوٹ کون ہے اور ملک و قوم کے مسائل میں اضافہ کیونکر ہو رہا ہے لہٰذا حکومت کا اپنا کام ہے اور میڈیا کا اپنا کام۔ اگر واقعتاً میڈیا اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کر رہا ہے تو حکومتی مخالفت بجا لیکن اگر زمینی حقائق اجاگر کئے جا رہے ہیں اور میڈیا مسائل زدہ’ مہنگائی زدہ عوام کی آواز بنا ہے تو یہی اس کا حقیقی کردار ہے اور وہ یہ کام کرتا رہے گا۔
 

Advertisement