لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) ایم کیو ایم کے کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے وفاقی کابینہ سے استعفے کا اعلان کر کے حکومتی تالاب میں پتھر پھینک کر ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا یہ ہے کہ حکومت کا حصہ بنتے وقت کہا گیا تھا کہ شہری علاقوں سے ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ ہوگا لیکن سولہ سترہ ماہ کی حکومت میں کسی ایک نکتہ پر بھی پیش رفت نہیں ہوئی۔ لہٰذا اس صورتحال میں میرا کابینہ میں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ہم نے جو حکومت سے تعاون کا وعدہ کیا تھا وہ کرتے رہیں گے ۔ تاہم میرا وزارت میں بیٹھنا بہت سارے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ فروغ نسیم کی وزارت ہمارے کھاتے میں نہیں۔ ایم کیو ایم کے کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی جانب سے استعفے کے اعلان کو سنجیدہ لینا چاہیے۔ کیا واقعتاً ان کی حکومت سے شدید مایوسی ہے یا ان کا استعفیٰ کسی بڑے سیاسی کھیل کا حصہ ہے۔ کون سی ایسی وجوہات ہیں جو حکومتیں کراچی کے مسائل کو سنجیدہ نہیں لے پا رہیں اور کراچی کے مسائل کے حل میں اصل رکاوٹ کون ہے۔؎
ایم کیو ایم کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو وہ سیاسی محاذ پر سیاسی جماعت کی حیثیت سے سرگرم ہونے کی بجائے ایک مخصوص سائنس کے طور پر متحرک نظر آتی ہے ۔ کب ٹھنڈا رہنا ہے کب گرم ہونا ہے اور خصوصاً حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کیلئے اس کو ملانے کی تراکیب کیا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں کا حصہ ہونے کے ساتھ متعدد بار ایم کیو ایم کی جانب سے وزارتیں چھوڑنے کا اعلان ہوا اور بعد ازاں ملک اور سسٹم کے وسیع تر مفاد میں وہ وزارتیں بھی لیتے نظر آئے۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو ایم کیو ایم کے سنجیدہ رہنما کے طور پر لیا جاتا ہے اور ان کی حیثیت صرف وفاقی وزیر کی نہیں بلکہ وہ ایم کیو ایم کے کنوینئر بھی ہیں لہٰذا ان کی جانب سے کیا جانے والا اقدام اور اعلان خاصا سنجیدہ ہے۔ حکومت نے اس کا نوٹس بھی لیا ہے۔
گورنر سندھ نے ایم کیو ایم کی قیادت سے رابطہ کر کے ان کے تحفظات کو تسلیم کرتے ہوئے معاملات کے سلجھاؤکا عندیہ دیا ہے ۔ جہاں تک کراچی اور سندھ کے شہروں کے مسائل کا تعلق ہے تو دیکھا جائے تو کراچی کا اصل مینڈیٹ تحریک انصاف کے پاس ہے اور قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کی تعداد ایم کیو ایم سے دوگنا ہے اور اس طرح سندھ اسمبلی میں بھی تحریک انصاف کے اراکین بڑی تعداد میں موجود ہیں لہٰذا مینڈیٹ کے تقاضے پورے کرنے کی ذمہ داری تو تحریک انصاف کی ہے اور وہ بھی کسی حد تک آواز اٹھاتے نظر آ رہے ہیں۔
ایم کیو ایم کی سیاست کا ایک خاصہ یہ ہے کہ وہ حکومت پر دباؤبڑھانے کیلئے بظاہر سیاسی ایشوز کو ٹارگٹ کرتے ہیں تاکہ ان پر سیاسی دباؤ آئے اور وہ ان سے مذاکرات پر مجبور ہوں، دراصل ایم کیو ایم کراچی میں اپنے بعض مسنگ اراکین کی بازیابی اور خصوصاً اپنے دفاتر کھولنے کے عمل پر متعدد بار حکومت سے کہہ چکے ہیں لیکن ان مطالبات کا براہ راست تعلق حکومت سے نہیں بلکہ ان اداروں سے ہے جنہوں نے کراچی میں لگنے والی بدامنی کی آگ پر قابو پانے کیلئے متعدد ایسے اقدامات کئے تھے جس سے ایم کیو ایم کی شہروں پر جو گرفت تھی وہ کمزور پڑی، پہلی بات تو یہ ہے کہ جہاں تک ایم کیو ایم نے کراچی کے مسائل کی بات کی ہے تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس حوالہ سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ 162 ارب کا پیکیج کا اعلان محض اعلان ہی محسوس ہوتا ہے۔
ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ ترقیاتی پلان پر عمل درآمد ان کے ذریعہ ہو جس کیلئے صوبائی حکومت تیار نہیں۔ لہٰذا بہت سے ایشوز ہیں جو ایم کیو ایم کیلئے اہمیت رکھتے ہیں جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ ایم کیو ایم حکومت کا ساتھ چھوڑ دے گی تو اس کا انحصار خود ایم کیو ایم پر ہے جنہوں نے ایم کیو ایم کو حکومت کے ساتھ بٹھایا تھا وہی اسے اٹھانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں مسائل سے زیادہ کراچی پر قبضہ کی خواہش پالے ہوئے ہیں۔