اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے غیر قانونی ری فنڈ کیس میں ڈپٹی کمشنر سیلز ٹیکس عبدالحمید کے خلاف دوبارہ انکوائری کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کہا ایف بی آر 3 ماہ میں انکوائری مکمل کرے، ایف بی آر نے ایک جرم میں ایک افسر کو کلئیر اور دوسرے کو سزا کیسے دی۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے غیر قانونی ریفنڈ کیس کی سماعت کی۔ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی پیش ہوئے، ایف بی آر نے ریفنڈ سے متعلق رپورٹ جمع کرائی۔ دوران سماعت ایف بی آر کے وکیل نے رپورٹ پڑھ کر سناتے ہوئے بتایا کہ ریفنڈ کرانے والے اشفاق دینو کے خلاف کارروائی کی گئی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رپورٹ میں ایڈیشنل کمشنر کا ذکر ہی نہیں، قواعد کے مطابق اصل مجاز افسر کون ہے؟ وکیل کا کہنا تھا کہ ایک ملین سے زیادہ کی رقم ایڈیشنل کمشنر منظور کرتا ہے، مجاز افسر ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے۔
چیف جسٹس کے استفسار پر وکیل نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر کے اوپر ایڈیشنل کمشنر تھے، ایڈیشنل کمشنر نے ریفنڈ کی منظوری نہیں دی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر مجاز تھے تو ایڈیشنل کمشنر درمیان میں کہاں سے آگئے ؟ اس کا مطلب ہے منظوری ڈپٹی کمشنر نے دی۔
چیف جسٹس نے کا کہنا تھا کہ 874.7 ملین روپے سرکار کے چلے گئے، رقم کیسے واپس لیں گے ؟ شبر زیدی نے کہا ایف بی آر اپنے طور پر ریکوری کر رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بغیر ریکارڈ انکوائری کیسے کی؟ سمجھ نہیں آرہا کیا کر رہے ہیں، اپیل مسترد کر دی تو کیا ہوگا، شبرزیدی صاحب! آپ بیٹھ جائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو پتہ ہے پرانی انکوائری رپورٹ دوبارہ پیش کر دی جائے گی، اگر ایف بی آر کا افسر گڑبڑ کرتا ہے تو کیا آپ اسے پکڑ نہیں سکتے۔ سپریم کورٹ نے ایف بی آر پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کوئی سچی بات نہیں کر رہا، عدالت کے ساتھ کھیل نہ کھیلیں، سانپ گزر گیا، اب اس کی لکیر پر لاٹھی مار رہے ہیں۔