لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) ملک میں بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری کے رجحان اور عوام میں اس کے نتیجہ میں پیدا شدہ ہیجان کی صورتحال کا آخر وزیراعظم عمران خان نے نوٹس لیا ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ مہنگائی میں کمی کیلئے ہر حد تک جائیں گے۔ غریب کا احساس نہیں تو حکومت میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ کچھ بھی کریں عوام کیلئے ریلیف کا بندوبست کرنا ہے، منگل کے کابینہ اجلاس میں اجناس کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کریں گے۔
وزیراعظم کی جانب سے اعلان اس امر کا احساس ہے کہ انہیں عوام کی حالت زار کا پتہ چلا ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ آٹے، دال کا بھاؤ کیا ہے اور مسائل زدہ عوام کو روٹی دال کے لالے پڑے ہوئے ہیں لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا عمران خان کی جانب سے اجناس کی قیمتوں میں کمی کے اعلان پر اس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد ہوگا اور آٹے، چینی، چاول، گندم اور گھی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے والوں کی سرکوبی ہوگی۔
آخر کیا وجہ ہے کہ مخصوص مافیا ایک وقفہ کے بعد اپنی تجوریاں بھرنے کیلئے اشیائے ضروریہ میں اضافہ کر دیتا ہے اور بعدازاں حکومتیں اس اضافہ میں کمی کی صورت میں عوام کی عدالت میں سرخرو ہوتی ہیں۔ کیا حکومت آج کی تشویشناک صورتحال میں سرخرو ہو پائے گی۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت جن مافیاز پر ہاتھ ڈالنے کا عزم ظاہر کرتی نظر آ رہی ہے کیا ان مافیاز تک پہنچ چکی ہے۔ ان پر ہاتھ پڑے گا اور لائے جانے والے کروڑوں اربوں کا حساب ہوگا۔ آج اگر حقیقت حال اور خصوصاً زمینی حقائق پر نظر دوڑائی جائے تو آہ و پکار کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی آمدنی اور وسائل میں کمی آ رہی ہے اور ان کے مسائل اور اخراجات ہر آنے والے دن کیساتھ بڑھ رہے ہیں اور آگے بھی انہیں کچھ نظر نہیں آ رہا۔
دوسری جانب حکومت اور ذمہ داران کی جانب سے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے اور انہیں ریلیف فراہم کرنے کی بجائے آئے روز وزرا ٹی وی چینلز پر یہ کہہ کر کہ یہ سب گزشتہ حکومتوں کا کیا دھرا ہے، عوام صبر کریں گھبرائیں ، الٹا عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ان میں زیادہ تر وہ ہیں جو غیر منتخب شدہ ہیں یا وہ جو انتخابات میں بری طرح شکست سے دوچار ہو چکے ہیں۔ ان وزرا کے بیانات اور جذبات و احساسات کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں، آج اس بات کے تجزیہ کی ضرورت ہے کہ عوام کیلئے ریلیف گورننس کی فراہمی اور سیاسی تبدیلی کی دعویدار حکومت کے دور میں حالت بہتر ہونے کی بجائے ابتری سے دوچار کیوں ہے۔ اس کی بڑی وجہ جو اب تک نظر آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی حکومت میں آنے کی تیاریاں بہت پہلے سے تھیں مگر ان کے پاس کوئی اقتصادی اور معاشی ٹیم نہ تھی جو تھی وہ پہلے سو روز میں بے نقاب ہوگئی۔
بعدازاں آئی ایم ایف سے مستعار لی جانے والی اقتصادی ٹیم اپنے ادارے کے اہداف کیلئے تو سرگرم نظر آئی مگر حکومت کو سرخرو نہ کر سکی۔ الٹا عوام کا کچومر نکال دیا گیا اور اس بات سے انکار صرف وہی کر سکتا ہے جس کی عقل پر پردہ پڑا ہو اور وہ میں نہ مانوں کی ر وش پر گامزن ہو۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ وزیراعظم عمران خان ہاتھ پاؤں مارتے نظر آئے لیکن ان سے صورتحال سنبھالی نہ جا سکی اور معیشت کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ گھر کی ہو یا حکومت کی یہ منصوبہ بندی کے بغیر نہیں چل سکتی اور جب معیشت ڈانواں ڈول ہونے لگے تو بہت سے دیگر معاملات کا رخ بھی بدل جاتا ہے اور ہاتھ پاؤں پھولتے نظر آتے ہیں جیسا کہ حکومت کے نظر آ رہے ہیں۔
ملکی معیشت قرضوں کی معیشت ہے اور ہر حکومت معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرتی ہے اور آئی ایم ایف کا کمال یہ ہے کہ وہ حکومتوں کو مراعات یافتہ طبقات پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے ہمیشہ ایسی ترکیب دیتا ہے جس سے غریب عوام کا خون چوسا جائے اس کا ہدف ہمیشہ بجلی، گیس اور پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تاکہ عوام کو نچوڑ لیا جائے۔