ثالثی کی پیش کش نے مودی کو دفاعی محاذ پر لا کھڑا کیا

Last Updated On 26 February,2020 09:36 am

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورہ بھارت کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور پاکستانی قوم کی قربانیوں کا اعتراف اور مسئلہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ثالثی کی پیش کش کر کے بھارتی وزیر اعظم مودی اور ان کی حکومت کو دفاعی محاذ پر لا کھڑا کیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو خود کو نریندر مودی اور بھارت کا حقیقی دوست قرار دیتے ہوئے یہ کہتے نظر آئے تھے کہ ان کے اطمینان کیلئے یہی کافی ہے کہ آج ان کا ایک حقیقی دوست وائٹ ہاؤس کا مکین ہے۔ لہٰذا اسی حقیقی دوست نے اپنے دورہ بھارت کے دوران خطہ کے اصل مسائل پر اظہار خیال کر کے جو حقیقت پسندانہ انداز اپنایا ہے اسے پاکستان کی سفارتی فتح اور ہندوستان کی شکست قرار دیا جا سکتا ہے اور اس کی اصل وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد اپنے حقیقی مینڈیٹ سے اعتراف برتتے ہوئے ملک کے اندر اور باہر خصوصاً ہمسایہ ممالک کے خلاف انتہا پسندانہ اور شدت پسندانہ طرز عمل اختیار کیا جس کی وجہ سے بھارت میں انتشار، خلفشار عروج پر ہے اور دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کے اندر انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر دنیا بھر میں بھارت کا سیکولر کردار اور خصوصاً دنیا کی بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ بے نقاب ہو گیا ہے اور آج صدر ٹرمپ جب بھارت کے دورہ پر ہیں تو دارالحکومت دہلی سمیت اہم شہروں میں ان کے متنازعہ شہریت بل پر زبردست عوامی رد عمل کا سلسلہ جاری ہے۔

ٹرمپ کے دورے کے حوالے سے بھارت میں طویل عرصہ سے تیاریوں کا عمل جاری تھا اور خصوصاً وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت یہ سمجھ رہی تھی کہ صدر ٹرمپ کے دورے سے ان کی حکومت مزید مضبوط اور علاقائی کردار اور زیادہ مؤثر ہوگا۔ لیکن امریکہ جیسی سپر پاور کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس کے کسی بھی ملک سے تعلقات یا ناچاکی کا انحصار کسی دوسرے ملک کے وقار میں نہیں۔ بلکہ وہ دوست اور دشمن کا فیصلہ ہمیشہ اپنے مفادات کے تحت کرتا ہے اور کوئی ایسا طرز عمل اختیار نہیں کرنا چاہتا جس سے اس کی عالمی حیثیت متاثر ہو۔ بعض دانشوروں کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے ریمارکس ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔

ایک ریٹائرڈ جنرل یہ کہتے نظر آئے کہ ہمیں پاکستان سنانے والوں کے ساتھ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہئے لیکن اگر ان کے اس رد عمل اور صدر ٹرمپ کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات یہ ضرور کہی جا سکتی ہے کہ جب ملک میں انتشار اور عدم استحکام ہو اور مذہبی رواداری کیلئے اقدامات کی بجائے اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہو، معاشی ترقی کی بجائے انتہا پسندی غالب نظر آنے لگے تو پھر قیادتوں کی پوزیشن وہی ہو جاتی ہے جس سے نریندر مودی گزر رہے ہیں اور صدر ٹرمپ کے اس دورہ بھارت کے بعد ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ امریکہ بھارت کو اپنا اسٹریٹیجک پارٹنر ضرور سمجھتا ہے لیکن وہ ایک ذمہ دار بھارت کو یہ کردار نہیں سونپ سکتا کہ وہ جو چاہے کرتا پھرے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہ ہو۔ جہاں تک صدر ٹرمپ کی جانب سے ایک مرتبہ پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کا سوال ہے تو یہ دراصل امریکہ کے عوام اور انسانی حقوق کے اداروں اور کانگرس پر ان کا دباؤ ہے جو مسلسل یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ کشمیر میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے اور ایک سپر پاور کے سربراہ کے طور پر صدر ٹرمپ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں جس پر صدر ٹرمپ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر دونوں ممالک اس پر تیار ہوں تو وہ ثالثی کیلئے تیار ہیں۔

یہ پیشکش انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران بھی کی تھی۔ اور یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے انہیں مسئلہ کشمیر حل کروانے کی درخواست کی ہے مگر جلد ہی بھار تی وزیراعظم نے کشمیر کو اپنا اندرونی مسئلہ قرار دے کر کسی ملک کی ثالثی سے انکار کر کے روایتی ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر ڈالا اور اس کے بعد 5 اگست کو انتہائی سخت کرفیو نافذ کر کے بھارتی آئین میں ترمیم کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی مقبوضہ کشمیر میں وہ کرفیو اور محاصرہ آج تک جاری ہے اور مقبوضہ کشمیر میں زندگی محال ہو چکی ہے جس کے نتیجہ میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے مگر امریکی صدر کی جانب سے ہر طرح کے انسانی حقوق کی پامالی اور انسانیت کی تذلیل کے باوجود بھارتی درندگی کے خلاف ایک حرفِ مذمت زبان پر لانے کی توفیق نہیں ہوئی لہٰذا یہی امر ان کی ثالثی کے عمل کو مشکوک بنائے دیتا ہے کیونکہ پاکستان اگر اس طرح کی پیشکش کرتا ہے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ پاکستان کا کشمیر پر اپنا ایک اصولی مؤقف ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں اس کی تائید کرتی نظر آتی ہیں۔

معاملے کا ایک اطمینان بخش پہلو یہ ضرور قرار دیا جا سکتا ہے کہ خود بھارت اس پر تیار نظر نہیں آتا اگر فرض کر لیں کہ بھارت بھی صدر ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کو قبول کر لے اور امریکی صدر بطور ثالث اس قسم کا کوئی حل ہم پر مسلط کر دیں جیسا امریکہ نے فلسطین پر تھوپا تھا تو پھر ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔ امریکی صدر کے دورہ بھارت پر بیانات کی ایک بڑی وجہ افغانستان میں ہونے والی اہم پیش رفت ہے جس میں پاکستان نے افغان امن عمل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہوئے امریکہ اور طالبان کے درمیان مجوزہ معاہدے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آج صدر ٹرمپ دہشت گردی کے خلاف نیا پاکستان کے کردار اور خصوصاً وزیراعظم عمران خان کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ اس میں ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے اور انٹرا افغان ڈائیلاگ بھی پاکستان کے کردار کے بغیر ممکن نظر نہیں آر ہا اور اگر امریکہ کی پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو اس نے اپنا وزن ہمیشہ بھارت کے پلڑے میں ڈالا ہے اور خصوصاً چین کے خلاف اس نے بھارت کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کر رکھا ہے اور بھارت کو اقتصادی طاقت بنانے کیلئے بھی اس نے اسے ممکنہ سپورٹ دی ہے اور وہ اپنی تمام تر اصول پسندی ، امن اور انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کے باوجود بھارت کی منڈی کو ترجیح دیتا آ رہا ہے۔ جبکہ پاکستان سے اس کی تاریخ بیوفائی پر محیط ہے۔

ہر مشکل وقت میں پاکستان سے مدد و معاونت حاصل کرنے والے امریکہ نے ہر مشکل مرحلے پر پاکستان سے منہ موڑا اور اسے اکیلا چھوڑ دیا۔ خصوصاً ثالثی کے عمل پر اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب بھارت اس کیلئے تیار ہو کیونکہ امریکہ بھارتی مفادات کے منافی کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا اس لئے کہ اس کا جھکاؤ بھارت کی جانب ہے اور کشمیریوں کی جدوجہد کے حوالے سے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی ساری جدوجہد حق خود ارادیت کیلئے ہے اور حق خود ارادیت کے بغیر کوئی بھی حل ایسا نہیں جسے کشمیری تسلیم کر لیں امریکہ اگر واقعتاً کشمیر کے مسئلہ کے حل کے حوالے سے مخلص ہے تو پھر مشرقی تیمور اور سوڈان کی طرح یہاں بھی استصواب رائے کروا کر کشمیریوں کو اپنے مستقبل کے تعین کا اختیار ملنا چاہیے اور یہی حل دیر پا اور حقیقت پسندانہ ہوگا۔