لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) منتخب حکومتوں کے قیام کے باوجود بڑی اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ قومی اور خصوصاً عوامی مسائل میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے مسائل کے حوالہ سے بیانات اور اعلانات سے بات آگے نہیں بڑھ پا رہی، یہی وجہ ہے کہ ملک کے اندر مایوسی، بے چینی اور بے یقینی جنم لے رہی ہے۔ سنجیدہ طبقات کے اندر یہ بحث عام ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جمہوریت اورجمہوری عمل کے تسلسل کے باوجود جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ پا رہے، جمہوری سسٹم کیوں ڈیلیور نہیں کر پا رہا، خرابی کہاں ہے ؟ گورننس کا خواب حقیقت نہیں بن رہا، اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر نہ تو تقرریاں وجود میں آتی ہیں اور اگر آتی ہیں تو چل نہیں پاتیں۔
سیاسی تبدیلی کی دعویدار حکومت نے بھی اب سیاسی تبدیلی کے نعرے سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اور وہ روایتی حکومتوں کی طرح ہی ڈنگ ٹپاؤ ایجنڈا پر گامزن ہے اور مستقبل پر نظر رکھ کر فیصلے کرنے کے بجائے نہایت عارضی اور روزمرہ بنیاد پر فیصلے کر رہی اور بدل رہی ہے جس کی وجہ سے معیشت، سیاست سے لے کر سماجی معاملات تک ہر معاملہ میں ہمیں نئے بحران کا سامنا ہوتا ہے۔ اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ایسا کیوں ہے۔ کیا حکومت واقعتاً گورننس کیلئے درکار اہلیت سے عاری ہے یا رکاوٹ کچھ اور ہے اور ہمارے ہاں جمہوری سسٹم کیوں ڈیلیور کرتا نظر نہیں آ رہا۔ اگر حکومت ہر محاذ پر ناکامی کے عمل سے دوچار ہے تو پھر اس مرحلہ پر اپوزیشن کہاں ہے ؟ اس وقت سب سے توجہ طلب سوال یہی ہے کہ حکومت ناکام کیوں ہے ؟ حکومت کی واضح ناکامی تو یہی ہے کہ اس کو عوام کے مسائل کا سرے سے ادراک ہی نہیں ہے۔
وزیراعظم موازنہ کی بنیاد پر تقریر تو اچھی کر رہے ہوتے ہیں مگر اس کے عملی اثرات نہ تو فیصلوں میں نظر آتے ہیں اور نہ ہی زمینی حقائق اس سے میل کھا رہے ہوتے ہیں۔ یہ تمام صورتحال بتا رہی ہے اصل مسئلہ گورننس کا ہے ۔ گڈ گورننس کیلئے کچھ بنیادی ضرورتیں ہوتی ہیں، اول یہ کہ مسائل کی نشاندہی درست ہو اور پھر اس کی تشخیص کے بعد درست فیصلے ہوں اور آخر میں ٹیم (بیورو کریسی) کے ذریعے ان کا نفاذ ہوتا ہے۔ حکومت واضح طور پر ٹیم سلیکشن کے بحران کا شکار ہے، بھان متی کے کنبے اور کہیں کے روڑے اور کہیں کی اینٹ سے گڈ گورننس کی عمارت کھڑی کرنا حکومت کے بس کا کام نہیں ہے۔
افسوسناک صورتحال کا تلخ ترین پہلو اپوزیشن کا کردار ہے جسے کوئی پرواہ نہیں کہ حکومت عوام کیلئے کچھ بھی نہیں کر پا رہی تو وہ بڑے ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا دست تعاون بڑھائے اور بحران کے خاتمے کیلئے اپنا کردار یوں ادا کرے کہ کوئی قابل عمل معاشی اور سیاسی منصوبہ قوم کے سامنے پیش کر دے۔ اپوزیشن درحقیقت اپوزیشن کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔