لاہور: (اجمل جامی) پنجاب پولیس میں اصلاحات ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں، ادھر جرائم کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق 11 کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل پنجاب میں کل 717 تھانے ہیں، جن کے اخراجات کیلئے 8.60 ارب روپے کی ضرورت ہے، مگر حکومت سے پنجاب پولیس کو صرف 4.6 ارب ہی ملتے ہیں۔ تفتیش کی مد میں فی کیس صرف 525 روپے جاری ہوتے ہیں جس سے تفتیش ممکن نہیں۔ اسلئے یہ بوجھ بھی عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ادھر لاجسٹک کا براحال ہے۔
گزشتہ دس سال کے دوران سندھ پولیس نے 1500 نئی گاڑیاں خریدیں، اس دوران پنجاب پولیس کو صرف 300 نئی گاڑیاں ملیں۔ پنجاب پولیس کی موجودہ گاڑیوں میں لگ بھگ 55 فیصد دس لاکھ کلومیٹر سے زائد چل چکی ہیں، وہ نئی موٹر سائیکل کا پیچھا کرنے کے بھی قابل نہیں۔ پرویز الٰہی دور میں پنجاب میں 356 پٹرولنگ پوسٹیں بنائی گئیں، انہیں ملنے والی گاڑیاں ناکارہ ہو چکی ہیں۔ 717 تھانوں میں سے 33 فیصد میں واش روم کی سہولت تک نہیں۔ 101 تھانے کرائے کی دکانوں یا عارضی ٹینٹ میں قائم ہیں۔ دیگر سرکاری اداروں کے برعکس پولیس اہلکار اور ان کے اہل خانہ سوشل سکیورٹی ، میڈیکل، تعلیم سمیت مختلف مراعات سے محروم ہیں۔ نفری بڑھانے کیلئے دس ہزار کانسٹیبل بھرتی کئے جا رہے ہیں۔
1934 کے پولیس ایکٹ کے فارمولے کو بنیاد بنایا جائے تو اس وقت صوبے میں مزید 80 ہزار نئی بھرتیوں کی ضرورت ہے۔ اس وقت پنجاب پولیس کی نفری لگ بھگ پونے دو لاکھ ہے، جس میں صرف ایک تہائی آپریشنل ہے، باقی وی آئی پی، وی وی آئی پی، ایلیٹ، ایس پی یو، سی ٹی ڈی سمیت دیگر فرائض پر مامور ہے، یعنی اضافی بوجھ تو ڈالا گیا مگر وسائل نہ دئیے گئے۔