لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) کورونا جیسے خطرناک اور جان لیوا ایشو پر پارلیمانی لیڈرز کے اجلاس سے یہ امید بندھی تھی کہ مذکورہ اجلاس میں قومی قیادت کی موجودگی میں ایسا لائحہ عمل طے پا سکے گا جس کے ذریعہ ملک بھر میں کورونا کے خلاف جنگ لڑی اور جیتی جا سکے گی لیکن ہوا کیا کہ وزیراعظم عمران خان اپنی تقریر کے بعد آف لائن ہو گئے جس پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف غصے میں آ گئے ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اس حساس ایشو پر بھی اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں اس سے ملک کے سربراہ کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لہذا ایسی صورتحال میں یہاں بیٹھنا مناسب نہیں ۔ اپوزیشن رہنماؤں کے بائیکاٹ سے کیا پارلیمانی لیڈرز کانفرنس کے مقاصد حاصل ہو گئے یہ بڑا سوال ابھر کر سامنے آیا ہے اور یہ تاثر ابھرا ہے کہ قائد ایوان آخر کیوں اپوزیشن کی لیڈرشپ کے ساتھ بیٹھنے اور ان سے مشاورت کیلئے تیار نہیں جبکہ خود اپوزیشن کی قیادت کے حوالہ سے بھی یہ رائے آ رہی ہے کہ اگر وہ اس مشکل صورتحال میں بائیکاٹ کا آپشن اختیار نہ کرتے تو اچھا ہوتا۔
ملکی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو کسی بھی اہم ایشو قومی سانحات یا بڑے واقعات پر ہمیشہ حکومت اپوزیشن کے تعاون کیلئے ان کی طرف ہاتھ بڑھاتی اور انہیں ساتھ لے کر چلتی نظر آتی رہی ہے اور اس میں ہمیشہ بنیادی کردار حکومت کا ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا شروع سے ایک بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کے بجائے انہیں ٹارگٹ کرنے کے در پے ہیں اور اس کا بڑا نقصان انہیں یہ ہوا کہ وہ اپنے مینڈیٹ کے مطابق اپنی حکومت کے ذریعہ عوامی اعتماد پر پورا نہ اتر سکے۔ ان کی حکومت کے قیام کے بعد سے اب تک کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں ایک دوسرے پر گرجتے برستے اور الزام تراشی کرتے نظر نہ آئیں، اس کا نقصان خود ان کو ہوا ہے یا نہیں البتہ ملک قوم اور معیشت کو ضرور ہوا ہے جو نہ تو بحال ہو سکی اور نہ ہی ملک کو ترقی و خوشحالی کے راستے پر لایا جا سکا۔ ہو سکتا ہے حکومت کے پاس اپوزیشن پر چڑھ دوڑنے کی بہت سی وجوہات ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ بحرانی کیفیت طاری کرنے کا نقصان ہمیشہ حکومت کو ہوتا ہے اسی لئے حکومت چاہنے کے باوجود نہ تو سیاسی تبدیلی کا خواب حقیقت بنا سکی اور نہ ہی ملکی معیشت کو ترقی کی پٹڑی پر ڈال سکی۔
کورونا وائرس اور اس کی تباہ کاریوں پر یہ امید بندھی تھی کہ اس کے نتیجہ میں دنیا کے جل جانے کے بعد پاکستان کی لیڈرشپ نوشتہ دیوار پڑھے گی اور اس موذی وبا اور بلا سے نمٹنے کیلئے ہوش کے ناخن لے گی۔ مگر شاید وزیراعظم اس مرحلہ پر بھی سولو پرواز ہی چاہتے تھے۔ پہلے انہوں نے اپوزیشن کو ساتھ ملا کر چلنے کی پیشکش پر سنجیدگی نہیں دکھائی بعدازاں سپیکر اسد قیصر کی تحریک پر پارلیمانی لیڈرز کا اجلاس بلانے کا فیصلہ ہوا تاہم محسوس یہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم شاید اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے یا ان سے مشاورت پر سنجیدہ نہیں۔ ورنہ یہ کام بہت شروع میں ہو جاتا تو شاید اب تک کورونا کی وبا اور اس سے نمٹنے کیلئے لائحہ عمل کے تعین اور اس پر عملدرآمد سے بہتر نتائج حاصل ہو پاتے۔ کورونا کا ایشو ایسا نہیں ہے جس پر کسی قسم کی سیاست کی جائے قوم نے ایشو کے حل کی ذمہ داری وزیراعظم عمران خان کو دی ہے اور انہیں اس ذمہ داری کو نبھانے کیلئے ایسی حکمت عملی ترتیب دینی چاہئے جس سے ملک میں انتشار، خلفشار پیدا نہ ہو۔ اگر وزیراعظم یہ سمجھتے ہیں وہ اکیلے ہی اس بڑے چیلنج سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو پھر نتائج کی ذمہ داری بھی انہیں لینا ہوگی۔ اچھا ہوتا وہ ذمہ داری سب کو لینے پر تیار کرتے۔
اپوزیشن لیڈرشپ کی جانب سے تو پھریہی کہا گیا کہ اب دوبارہ تب مل بیٹھیں گے جب وزیراعظم موجود ہوں گے جس سے ظاہر ہوتا ہے وہ ڈیڈ لاک نہیں ڈائیلاگ کی خواہاں ہیں۔ جہاں تک بعض حکومتی وزرا کی جانب سے شہباز شریف کو ٹارگٹ کرنے کے عمل کا سوال ہے تو اس سے شہباز شریف کی اہمیت و حیثیت کم نہیں ہوگی بلکہ عوامی اور سیاسی سطح پریہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ اس صورتحال میں ان وزرا پر شہباز شریف کا بخار کیونکر ہوا ہے۔ بلاول نے پریس کانفرنس کے ذریعہ حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ اپنے طرزعمل پر نظرثانی کرے۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہئے اس مرحلہ پر سیاست سے بالاتر ہو کر آگے بڑھیں۔ چیلنج بہت بڑا ہے بہت سے خدشات اور خطرات ہیں لہٰذا انہیں دل بڑا کرنا چاہئے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی میں ہی ملک و قوم کا فائدہ ہوگا۔