اسلام آباد: (دنیا نیوز) آٹا چینی بحران پر ایف آئی اے کی رپورٹ نے پینڈورا باکس کھول دیا، چینی کا کاروبار پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ کے قبضے میں ہے، وفاقی کابینہ نے چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت جبکہ پنجاب کابینہ نے سبسڈی دی، تحقیقات میں وزیر اعلیٰ کو شامل کرنا ہوگا۔
‘‘ دنیا کامران خان کے ساتھ ’’کے میزبان کے مطابق اہم سوال یہ ہے کہ کیا ملوں نے ذخیرہ اندوزی سے قیمتیں بڑھائیں۔ اس حوالے سے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق چیئر مین ایس ای سی پی خالد مرزا نے کہا جب شوگر ملز کی نیلامی ہوئی تو سیاسی بنیادوں پر ہوئی اس کے بعد جب یہ ملز چلائی جاتی ہیں تو اسی بنیاد پر چلتی ہیں، شوگر ملز کمرشل بنیادوں پر نہیں چلتیں۔
انہوں نے کہا چینی پر ملک میں بار بار مسائل آئے ہیں، چینی کے مسئلے کو حل کرنا ہے تو اسے فری مارکیٹ بنا دینا چاہئے، اگر کوئی اسے ایکسپورٹ کرنا چاہتا ہے تو کرے۔ انہوں نے کہا ایف آئی اے کی 32 صفحات کی رپورٹ میں کچھ نہیں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس معاملے میں وفاق اور پنجاب دونوں حکومتیں ذمہ دار ہیں، فرانزک آڈٹ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
ماہر آئین و قانون عابد زبیری نے کہا حتمی فیصلہ فرانزک رپورٹ کے بعد عدالت کرے گی، اس سے پہلے اس کی کوئی حیثیت نہیں، عدالت دوسری سائیڈ کو بھی سنے گی اور اس کے بعد فیصلہ ہوگا۔ سبسڈی لینا کوئی جرم نہیں، جرم یہ ہوا ہے کہ مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت کیوں بڑھی۔
ماہر امور اجناس شمس الاسلام نے کہا چینی پر اربوں کھربوں کا سٹہ کھیلا جاتا ہے، شوگر ملز مالکان کا کارٹیل ہے جسے کبھی توڑا نہیں جاسکا۔ حکومت کو پہلے والی پالیسی ختم کر کے سمارٹ پالیسی لانی ہوگی اور سٹہ ختم کرنا ہوگا۔
ترجمان پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن وحید چودھری نے کہا بازار میں چینی نہ مل رہی ہو اور ملوں میں پڑی ہو تو پھر اسے ذخیرہ اندوزی کہہ سکتے ہیں، پاکستان میں تو اس عرصے میں چینی کی کمی نہیں ہوئی، پی ٹی آئی کی حکومت نے کاشکاروں کو سپورٹ کرنے کیلئے سبسڈی دی، اس سال کاشتکار بھی خوشحال، فصل بھی اچھی ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا جب عالمی مارکیٹ میں چینی مہنگی تھی تب پی ٹی آئی حکومت نے ایکسپورٹ کی اجازت نہیں دی جب سستی ہوئی تو اجازت دیدی پھر اس کو سبسڈی بھی دینی پڑی، شوگر ملز کا سٹہ سے کوئی تعلق نہیں۔