اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم سمیت چاروں وزرائے اعلیٰ اور معاون خصوص شہزاد اکبر کو بھیجی گئی جوابی کاپی میں تحقیقاتی کمیٹی افسران پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایف آئی کی رپورٹ گمراہ کن مفروضوں پر مبنی ہے۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے 45 صفحات پر مشتمل جواب ایف آئی اے کو جمع کروایا گیا ہےجس میں کہا گیا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی میں موجود افسران کا نہ تو کاروبار کے شعبہ میں کوئی تجربہ اور نہ ہی مارکیٹ سے جڑے حقائق کا انہیں کوئی ادراک ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی کو یہ تک معلوم نہیں کہ چینی کا کاروبار پاکستان کا واحد کاروبار ہے جس میں حکومت گنے کی قیمت تو مختص کر دیتی ہے لیکن چینی کی قیمت کا کوئی ریٹ مقرر نہیں کیا جاتا۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ بسا اوقات گنے کی ملکی ضرورت سے زائد پیداوار ہونے کی صورت میں حکومت ایکسپورٹ کی اجازت دیتی ہے۔ نہ تو ایکسپورٹ پہلی بار ہوئی اور نہ ہی اس میں کوئی انہونی بات ہے۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ کمیٹی جس دورانیے کی تحقیقات کر رہی ہے اس دوران کسی قسم کی کمی نہیں تھی اور یہ بات خود کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں تسلیم کی ہے۔ رپورٹ میں دسمبر 2018ء میں چینی کی 51 روپے فی کلو قیمت کا ذکر ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ چینی 2017-18ء سیزن میں بنی۔
ایف آئی اے کو جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ جب حالیہ تاریخ میں گنے کی سب سے زیادہ پیداوار ہوئی جس سے قیمتیں نیچے آئیں اور نتیجتاً سستی چینی عوام تک پہنچی۔ ضرورت سے زائد پیداوار والا سیزن ختم ہوتے ہی اور نئی فصل آنے سے گنے کی قیمتیں دوبارہ اپنی اصل سطح پر آ گئیں جس سے چینی کی قیمت میں اضافہ ہوا۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ رپورٹ حقائق کی بنا پر خود تسلیم کرتی ہے کہ تمام شوگر ملز کے درمیان سخت مقابلہ رہتا ہے لیکن ساتھ ہی کارٹیل کا الزام بھی عائد کرتی ہے۔ یہ مضحکہ خیز بات ہے۔
جواب میں کہا گیا کہ تحقیقاتی کمیٹی یہ بات سمجھنے تک سے قاصر رہی کہ فارورڈ کانٹریکٹس دنیا بھر میں تجارت کے لئے معمول کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کا ‘سٹے ’سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کام کے واحد ذمہ دار بروکر حضرات ہیں جن کے فعل سے چینی کے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن نے کہا کہ تمام حقائق کی روشنی میں یہ واضح ہو گیا کہ ایف آئی اے کی رپورٹ گمراہ کن اور حقائق کے منافی ہے۔ 25 مارچ 2020ء کو انکوائری کمیشن کو خط لکھ کر اپنا موقف دینے کی گزارش کی لیکن آج تک ہمیں سنا ہی نہیں گیا۔