لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) مسلم دشمنی میں مودی سرکار انسانیت کی تمام حدیں پار کرتی نظر آ رہی ہے۔ کوئی ایک دن ایسا نہیں جا رہا کہ جس میں بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کو نشانہ نہ بنایا جا رہا ہو۔ بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جو اپنے ہی شہریوں پر مذہبی بنیاد پر تعصب کا الزام لگاتے ہوئے ان کے خلاف طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔ دوسری جانب مقبوضہ وادی کشمیر میں قتل و غارت کا سماں طاری کر رکھا ہے۔ گھر گھر تلاشی کے عمل کے دوران نوجوانوں کو ٹارگٹ کلنگز کا شکار کیا جا رہا ہے۔
دنیا میں اس وقت مقبوضہ وادی کشمیر واحد جگہ ہے جہاں ریاستی دہشت گردی عروج پر ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بدترین عمل جاری ہے مگر نہ تو عالمی برادری اس حوالہ سے حرکت میں آئی ہے اور نہ ہی نریندر مودی سرکار کے کانوں پر جوں تک رینگ رہی ہے لہٰذا سوال یہ پیدا ہو رہے ہیں کہ کیا کسی ریاست کو اپنے ہی شہریوں کے خلاف قتل و غارت کا لائسنس ملا ہوتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگز کا عمل حالات کو کہاں لے جائے گا۔ دنیا کورونا کی تباہ کاریوں سے دوچار تو بھارتی سرکار بھارت میں مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار کیوں ہے۔
مقبوضہ وادی میں جاری صورتحال پر پاکستان کا ردعمل کیونکر نتیجہ خیز نہیں بن رہا۔ جہاں تک مقبوضہ وادی کشمیر میں جاری صورتحال کا تعلق ہے تو آٹھ ماہ سے زائد جاری کرفیو کے سفاک عمل کے باوجود بھارتی افواج یہاں قتل و غارت کا سلسلہ شروع کئے ہوئے ہیں۔ انہیں اس امر سے بھی غرض نہیں کہ کورونا وائرس سے صورتحال یہاں ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جنگی جنون میں مبتلا مودی سرکار اپنے شہریوں کو کورونا سے بچاؤ کا انتظام کرنے کے بجائے آزاد کشمیر کے سرحدی قصبات میں گولہ باری کا بھیانک کھیل کھیل رہی ہے اور مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اپنی اندرونی ابتر صورتحال اور خصوصاً مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال سے توجہ ہٹا کر کنٹرول لائن پر توجہ مرکوز رکھے اور الٹا پاکستان پر الزام تراشی کرے لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ نہ تو عالمی برادری کی جانب سے اس صورتحال کا نوٹس لیا جا رہا ہے اور نہ ہی بھارت کا ہاتھ پکڑا جا رہا ہے۔
نہتے اور مظلوم کشمیریوں نے پوری دنیا کو پکارا۔ انسانی حقوق کے اداروں کو جھنجھوڑا اور عالم اسلام کو ہلانے کی کوشش کی لیکن کسی نے ان کی طرف توجہ نہیں دی۔ بھارت کی سرکار سمجھتی ہے کہ لاک ڈاؤن کو ختم کیا گیا تو کشمیری پھر ردعمل کا اظہار کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وقفہ وقفہ سے کشمیریوں کی نسل کشی پر آواز تو اٹھائی جاتی ہے اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا بھی جاتا ہے مگر اس کا نہ عالمی ضمیر پر کوئی اثر ہوا نظر آتا ہے اور نہ ہی پاکستان کی جانب سے بیانات کے گولے داغنے کا خود بھارتی سرکار پر کوئی اثر ہو رہا ہے۔ لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ معاملات پر ٹویٹس کے ذریعہ ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں پر دباؤ ڈالا جائے۔
امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک کو چاہئے کہ بھارت کی جانب سے ظلم، تشدد اور بربریت پر اس کی پکڑ کرے اور دباؤ محسوس نہ کرنے پر بھارت کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں۔ بھارتی حکومت کی اشیرباد پر سوشل میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور انہیں ہندوستان سے بھگانے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ مذکورہ عمل یہ بتا رہا ہے کہ بھارت کا سکیولر اور جمہوری تشخص ہوا میں تحلیل ہو چکا ہے۔ خود بھارتی دانشور یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ یہ طرزعمل اور پالیسی بھارت کی وحدت کیلئے خطرناک ہے۔