لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) سیاست ایک متحرک اور فعال عمل کا نام ہے اور سیاسی میدان میں اہمیت اور حیثیت اسی کی قائم رہتی ہے جو حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں اپنا ایک متحرک اور فعال کردار ادا کرتا نظر آئے۔ یہی عمل اس کی عوامی اور سیاسی حیثیت کو قائم رکھتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے صدر سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کا کردار اپنی کارکردگی اور تگ و دو کی بنا پر بہت زیادہ اہمیت کا باعث بنا۔ ان کے دور وزارت اعلیٰ میں انہیں ملک بھر میں غیر معمولی حیثیت حاصل رہی۔ ان کی حکومتی کارکردگی کو اپنے تو اپنے غیر بھی سراہتے نظر آئے مگر جب اس طرح کی شخصیت خاموشی اختیار کر لے اور میدان عمل میں اپنے بھرپور سیاسی کردار کے بجائے سیاسی بیانات اور اعلانات پر اکتفا کئے رکھے تو اس کی کوئی بڑی وجہ ہوتی ہے۔
کورونا وائرس کی وبا پھوٹی تو شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کے ہمراہ لندن میں تھے۔ ڈینگی میں موثر اور متحرک کردار کی وجہ سے ان پر عوامی دباؤ بڑھا کہ وہ کورونا کی مشکل میں فوراً واپس آئیں اور یہاں آ کر اپنا سیاسی کردار ادا کریں۔ وہ پاکستان پہنچے، وبا کے خلاف حکومت کو اپنے تعاون کا یقین دلایا مگر انکی ہنگامی آمد حکومت ہضم نہ کر سکی اور ان کے خلاف محاذ کھول دیا گیا، نیب بھی حرکت میں آ گیا۔ جس کا مقصد متبادل لیڈر شپ کے طور پر شہباز شریف کے کردار پر اثر انداز ہونا تھا اور یہ اس وقت مقصد کسی حد تک حاصل کر لیا گیا جب شہباز شریف نے رہائشگاہ کو ہی مرکز بنا کر ریلیف سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ حکومتی الزام تراشی کی مہم کا مقصد یہی تھا کہ شہباز شریف ملک گیر سطح پر متحرک نہ ہوں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ انہیں یہ پیغام دیا گیا کہ حکومت کیلئے مسائل کھڑے نہیں کرنا، انکا عمل ظاہر کرتا ہے کہ شاید وہ کسی دباؤ میں آگئے۔
اب اگر سیاست کے محرکات کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت شہباز شریف کے ایک بڑے متحرک کردار کی ضرورت تھی۔ ایک جانب وہ حکومت کو دباؤ میں رکھتے اور دوسری جانب ملک بھرمیں ان کی جماعت عوام میں فعال ہو جاتی، ان دونوں عوامل کے نتیجہ میں وہ ایک قد آور سیاستدان کے طور پر قوم اور فیصلہ کن قوتوں کے سامنے متبادل کے طور پر کھڑے ہو جاتے مگر ایسا کیا ہوا کہ متحرک شخص دفاعی محاذ پر آ کھڑا ہوا۔ انہوں نے سیاسی میدان کے بجائے سیاسی بیانات پر اکتفا کیا اور یوں سیاست میں زبردست واپسی کا موقع کھو بیٹھے۔ اس کے برعکس اگر وہ اپنا متحرک کردارادا کرتے تو حکومت کو موجودہ بحران میں لینے کے دینے پڑ جاتے۔ حکومت خود اپوزیشن کو سیاسی اتفاق رائے کی دعوت دیتی، اپوزیشن پارلیمنٹ کے ذریعے صورتحال کو احسن طریقے سے ڈیل کرتی مگر یہ سب منظر نامہ بوجوہ تخلیق نہ ہو سکا۔ ایساکیونکر ہوا ؟ اس بوجوہ میں بہت کچھ شامل ہے۔ انتظامی محاذ پر پہلی عوامی چوائس شہبازشریف بحران میں کہیں بھی نظر کیوں نہ آ سکے ؟ درحقیقت وہ اس لمحے اپوزیشن اور اقتدار کی خواہش کے درمیان تقسیم ہیں۔
اگر عمران خان کے فیصلے کنفیوژ ہیں تو ان کے مدمقابل اپوزیشن کی سب سے بڑی اور موثر جماعت نواز لیگ بھی تذبذب کا شکار ہے۔ اس جماعت کے پاس ایک طرف نواز شریف کا بیانیہ ہے جس کیلئے انہوں نے اقتدار کے ایوانوں کو خیرباد کہا، مگر دوسری طرف اس کے برعکس دوسرا بیانیہ شہباز شریف کا حالیہ انٹرویو، جس میں انہوں نے پس پردہ مفاہمت کے ذریعے اقتدار کی منزل کے قریب پہنچ جانیکا اشارہ کیا۔ یہی وہ کنفیوژن ہے جس نے شہباز شریف کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ ڈالی۔ اس کنفیوژن کو اس وقت بھی سیاسی منظر نامے پر محسوس کیا گیا اور خود ن لیگ کی اعلیٰ سطحی قیادت بھی دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی اور پارٹی نظریاتی طور پر عملاً تقسیم ہو بیٹھی۔ شہباز شریف کو ایک حقیقت ہمیشہ ذہن میں رکھنا ہوگی کہ وہ مفاہمت سے کچھ رعایتیں تو حاصل کر سکتے ہیں مگر کامل اقتدار تک پہنچنے کا دروازہ عوام سے ہو کر گزرتا ہے۔ شہباز شریف کو مفاہمت سے دامن چھڑا کر حکومت پر دباؤ بڑھانا ہوگا وگرنہ انکی جماعت مایوسی کا شکار ہو سکتی ہے۔ لہٰذا شہباز شریف کو مفاہمت کے بجائے حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنا چاہئے اور اپنی سیاست کا محور انہی حالات اور عوام کے مسائل کو بنانا چاہئے، اگر انہوں نے مفاہمت کے راستے میں توازن کھود یا تو ان کے ہاتھ سے بہت کچھ پھسل سکتا ہے۔