نیویارک: (روزنامہ دنیا) کورونا کی وبا میں ایک پاکستانی امام نیویارک کے مسلمانوں کے لئے ہیرو کے روپ میں سامنے آئے ہیں، جو خود بھی اس وائرس کا شکار ہونے کے باوجود اب تک 200 جنازے پڑھا چکے ہیں۔ امام احمد علی کی خدمات کو امریکی حکام نے بھی سراہا۔
‘انڈیپنڈنٹ اردو ’کے مطابق مارچ کے چوتھے ہفتے میں نیویارک سٹی میں 18 ہزار کے قریب کورونا کیسز سامنے آئے اور تقریباً 200 کے قریب لوگ جان سے چلے گئے، یہی وہ دن ہیں جب شہر میں تجہیز و تکفین کے فرائض ادا کرنے والے مسلم ادارہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجنا شروع ہوتی ہے، اس دوران ایک پاکستانی امام سامنے آئے جو سات ہفتوں میں 200 سے زیادہ جنازے پڑھا کر ہیرو کہلائے جا رہے ہیں۔ نیویارک شہر میں مسلمانوں کے چھ ادارے ہیں اور ہر ادارہ ہر مہینے 15 سے 20 افراد کی آخری رسومات ادا کرتا ہے۔
ایسے میں منی پاکستان کہلائے جانے والے نیویارک کے علاقے کونی آئی لینڈ ایونیو میں قائم الریان مسلم فیونرل ہوم میں ایک 37 سالہ پاکستانی نوجوان امام احمد علی کو فون کرتا ہے اور ان سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اس غیر معمولی صورت حال میں ان کی مدد کریں۔ احمد علی ٹیکسی چلاتے ہیں اور اس کے ساتھ بروکلین میں ایک ترک مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ ان کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔
امام احمد علی نے نیویارک سے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جس روز مجھے کورونا کے پہلے مریض کا جنازہ پڑھانے اور تدفین کے لیے فیونرل ہوم سے کال آئی تو میرے گھر والوں نے مجھے اس کام سے روکا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس طرح میں اپنی اور ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالوں گا مگر میں نے کہا کہ یہ اسلامی فریضہ ہے جس سے انکار کسی صورت نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ ایک ڈر اور خوف میرے اندر بھی موجود تھا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے حوصلہ دیا۔ شروع میں ایک دن میں تین چار جنازے پڑھائے جن میں سے ایک آدھ کی تدفین بھی کرنی پڑی مگر چند ہی دنوں میں یہ تعداد 20 سے زیادہ افراد تک پہنچ گئی۔
احمد علی نے کہا آٹھ روز بعد مجھے بخار ہو گیا جس میں درد اور کورونا والی دوسری علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئیں، میں نے گھر میں خود کو علیحدہ کر لیا مگر لوگوں کی تدفین کا عمل ترک نہیں کیا، میں بیماری کی حالت میں بھی جاتا رہا، ایک ہفتے بعد میری بیماری ٹھیک ہو گئی تو میں پہلے سے بھی زیادہ مذہبی جذبے سے اپنے فرائض ادا کرنے لگا، مرنے والوں کے گھر کے افراد بھی آخری فرائض میں شریک ہونے سے ڈرتے تھے، مرنے والوں کو اجتماعی قبروں میں دفنایا جا رہا تھا، بعض جنازے تو ایسے بھی پڑھائے جن میں جنازہ پڑھنے والا میں اکیلا ہی تھا۔
امام احمد علی کا کہنا تھا گزشتہ سات ہفتوں میں دو سو کے قریب جنازے پڑھائے جن میں سے 170 کے قریب کی تدفین بھی مجھے ہی کرنی پڑی۔ 70 سے زائد میتوں کو غسل بھی دے چکا ہوں اور یہ کام دن رات جاری رکھا یعنی دفنایا تو دن کو ہی جاتا تھا لیکن میتوں کو فیونرل ہوم پہنچانا اور ان کے جنازے پڑھانے کا عمل دن رات جاری رہتا تھا، اس دوران آرام کا وقت بھی کم ملتا، پانچ چھ ایسی میتوں کی بھی تجہیز و تکفین کی جن کا کوئی والی وارث نہیں تھا۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا انہیں فیونرل ہوم اس کا کوئی معاوضہ بھی ادا کرتا ہے تو انہوں نے بتایا لاک ڈاؤن کی وجہ سے میں فارغ تھا کہ اللہ نے مجھ سے یہ کام لے لیا جو بلا معاوضہ اور صرف اللہ کی رضا کے لیے کیا ہے۔
امام احمد علی کے تین بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا 15 سال کا ہے اور وہ بھی مسجد میں جمعے کا خطبہ انگریزی میں دیتا ہے، امام احمد علی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ وہ اس کے علاوہ اور کیا کچھ کرتے ہیں ؟ تو انہوں نے خوش دلی سے جواب دیا کہ پیدائش سے لے کر تدفین تک سار ے کام کرتا ہوں، بچے کے کان میں پہلی اذان دیتا ہوں، جب وہ جوان ہوتا ہے تو اس کا نکاح بھی پڑھاتا ہوں۔