شہباز کو ملنے والی کک بیکس کی ٹریل موجود، جواب دیں ورنہ ریفرنس دائر ہونیوالا ہے‘

Last Updated On 17 May,2020 09:59 am

اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ شہبازشریف کو ملنے والی کک بیکس کی ٹریل موجود ،سوال وہیں کہ وہیں ہیں، اپوزیشن لیڈر جواب دیں ورنہ ریفرنس دائر ہونے والا ہے،عید کے بعد وہاں جواب دینا پڑیں گے، ن لیگی صدر بتائیں مسرور انور،شعیب قمر اور فضل داد عباسی کون ہیں؟ نیب سے روزانہ سماعت کرنے، شہبازشریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی اپیل کرتے ہیں۔

اسلام آباد میں معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز کیساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ پریس کانفرنس میں جو مخصوص چیزیں بیان کیں اورایک نئے کمپنی جس میں شہباز شریف کے براہ راست کک بیکس اور کرپشن کا ذکر تھا جس پر 3 روز گزرنے کے باوجود خود لیگی صدر کی طرف سے جواب نہیں آیا۔

انہوں نے شہباز شریف کا حوالے سے کہا کہ وہ اس وقت قرنطینہ درقرنطینہ میں چلے گئے ہیں، پہلے ہی وہ آئسولیشن میں تھے اور اب مزید آئسولیشن میں چلے گئے ہیں۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے اپنے چند حواریوں کو بھیجا جن میں بدقسمتی سے ایک سابق وزیراعظم بھی ہیں جنہوں نے رخ کو موڑنے کی کوشش کی، میرے خیال میں اپوزیشن کی دو پہلوؤں کی بنیاد پر حکمت عملی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلی حکمت عملی تھی کہ اسمبلی اجلاس میں کووڈ-19 پر حکومتی اقدامات پر براہ راست تنقید شروع کردیں اور بے بنیاد تقاریر کی اور بار بار کہنا ہے کہ آپ کی حکمت عملی کیا ہے جبکہ اٹھارویں ترامیم کے مطابق این سی او سی اور این سی سی میں ملک کی تمام نمائندگی تھی اور حکومتیں آئینی تقاضوں کے مطابق کام کررہی ہیں۔

معاون خصوصی برائے احتساب کا کہناتھا کہ پاکستان کی کوششوں کو عالمی ادارہ صحت بھی سراہتا ہے لیکن اس کے باوجود توجہ ہٹانے کی حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے جبکہ دوسری حکمت عملی شہزاد اکبر کو تنقید کا نشانہ بنانا تھا۔

شہباز شریف سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہباز شریف جن فرشتوں کو اپنی چند بھینسوں کا قیمتی اور نایاب دودھ فروخت کرتے تھے وہ فرشتے منظر عام پر آچکے ہیں اور اصل درد، ان فرشتوں کا سامنے آناہے۔ میاں محمد شہباز شریف بتائیں مسرور انور، شعیب قمر اور فضل داد عباسی کون ہیں؟

اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ملک اس وقت 2 وائرسز کا شکار ہے، ایک وائرس کورونا کے نام سے جانا جاتا ہے، بدقسمتی سے اس کا ابھی تک کوئی دوائی دریافت نہیں ہوا، اس وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بھی یہ وائرس اپنی تباہی پھیلا رہا ہے جس سےحکومت پاکستان، وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ایک بڑے جامع پلان و حکمت عملی کے ساتھ نمٹ رہی ہے۔

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور ان کے رفقا نے بڑی تفصیل سے اپنی حکمت عملی و اعداد و شمار، موجود حالات اور آنے والے وقت سے متعلق لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ وہ پلان ہے جس میں ہم اپنی طاقت اور کمزوریوں دونوں کو استعمال میں لارہے ہیں، ہمارا ملک کو کافی مشکلات کا سامنا کررہا ہے اس کے باوجود عمران خان نے 1.2 کھرب روپے کے ایک جامع پیکج کا اعلان کیا۔ اس پیکج کا مقصد معاشرے کے مختلف طبقے کی مدد کرنا تھا۔

انہوں نے ملک میں جب یہ وبا آئی تو حکومت اور وزیراعظم کی حکمت عملی بڑی واضح تھی، انہوں نے ایسا پروگرام ترتیب دیا جس سے نہ صرف ملک کو اس آفت سے بچایا جائے بلکہ 2 ادارے این سی سی اور این سی او سی بنائے۔

انہوں نے کہا کہ این سی او سی میں ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز، ڈاکٹرز، سیاسی قائدین، پارلیمینٹیرین، ماہرین، تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شامل ہیں کیونکہ حکومت کا یہ واضح موقف تھا کہ صرف پی ٹی آئی یا اکیلی حکومت اس سے نہیں لڑ سکتی اور اسی سلسلے میں وزیراعظم نے تمام وفاقی اکائیوں کو ایک طرح دیکھا اور انہیں مساوی طور پر شامل کیا۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ہسپتالوں کو سامان فراہم کیا گیا اس کے علاوہ تمام طبی سامان تمام صوبوں کو فراہم کیا کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایسی جنگ ہے جسے مل کر ہی شکست دی جاسکتی ہے۔

اپوزیشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسی دوران اپوزیشن خاص طور پر مسلم لیگ (ن) نے پارلیمنٹ کا اجلاس بلوایا۔ چونکہ مسلم لیگ (ن) کی کسی صوبے میں نمائندگی نہیں تھی اور وہ آن بورڈ نہیں تھے تو ہم نے انہیں موقع دیا کہ وہ بھی پارلیمنٹ میں آکر تجاویز دیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہوا یہ کہ جنہوں نے اجلاس بلایا تھا قائد حزب اختلاف شہباز شریف وہ خود قومی اسمبلی اجلاس سے غیرحاضر رہے۔

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں وہی تقاریر ہوئیں جو پریس کانفرنس میں کی جاتی تھیں جبکہ شہباز شریف کا اس اجلاس میں شرکت نہ کرنا اسی بات کی غمازی ہے کہ اشرافیہ کی ذہںیت (ایلیٹ مائنڈ سیٹ) برسرپیکار ہے، وہ نہیں سمجھتے تھے کہ ان کی صحت ان کو اجازت دیتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں آکر خود کو خطرے میں ڈالیں، باقی پارلیمنٹیرینز اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کی زندگی اہم نہیں ہے، ان کی اپنی پارٹی کے بیمار رکن بھی اس اجلاس میں آئے۔

وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ یہ چیز اس پارٹی کے کلچر کو ظاہر کرتا ہے کہ اپنے لیے کچھ اور اپنی پارٹی کے لیے کچھ کہ جب بیمار ہوتے ہیں تو لندن چلے جاتے ہیں۔

اپنی جماعت کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوسری جانب ہماری قیادت ہے، وزیراعظم عمران خان 30 فٹ سے نیچے گرے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ایک بین الاقوامی شخصیت ہیں، ان کے لیے سب انتظام ہوسکتا تھا لیکن انہوں نے اپنے بنائے ہوئے ہسپتال میں علاج کو ترجیح دی، یہ ہوتا ہے ایک لیڈر کا عزم اور عوام سے وابستگی۔

اپوزیشن جماعت پر تنقید میں شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ یہ اقتدار میں ہوتے ہیں یا باہر ہوتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نااہل ہیں تو اس پر میرے ان سے 2، 3سوالات ہیں، کیا قومی اداروں کو طاقت ور بنانا نااہلی ہے؟، کیا احتساب کے عمل کو آگے بڑھانا یا غریبوں کو ریلیف دینا نااہلی ہے؟ جو کرپٹ اور نااہل تھے انہیں عوام نے 2018 میں ہی مسترد کرکے نااہل ثابت کردیا تھا۔

دوسرے وائرس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں دوسرے وائرس کا اینٹی ڈوٹ دریافت ہوچکا ہے جس کا نام عمران خان لہٰذا ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اسے عمران خان ہی ختم کرے گا، یہ وائرس عوام کے خون کو چوستا ہے، آپ کے ملک کی بنیادیں کمزور کرتا ہے اور ملک کو قرضوں میں ڈبوتا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ایون فیلڈ یا اس طرح کی کھربوں کی جائیدادیں جو شہباز شریف اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ اس وائرس کا سب سے بڑا شیئر ہولڈر ہے، انہوں نے ایک بڑے منظم طریقے سے ملک کے وسائل کو پامال کیا اور اپنے لیے ایک دوسری دنیا بسائی جس کا پاکستان کے عوام اور غریبوں سے کوئی تعلق نہیں۔

انہون نے کہا کہ خدانخواستہ یہ ملک اگر اجڑتا ہے تو انہوں نے اپنے لیے ایک دوسری دنیا آباد رکھی ہے، جس میں ان کے بھائی، بیٹے، بھتیجے اور یہ خود واپس جانا چاہتے ہیں لیکن ایسا ہونے والا نہیں ہے۔
 

Advertisement