وعدے وفا نہ ہونے پر اختر مینگل کی حکومت سے راہیں جدا

Last Updated On 18 June,2020 09:07 am

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) وفاق میں حکومت کی اتحادی بلوچستان نیشنل پارٹی نے وعدے وفا نہ ہونے پر تحریک انصاف سے راہیں جدا کر لیں، قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے تقریر کرتے ہوئے یہ بیان کہ ‘‘بابو جی ذرا دھیرے چلنا ’ پیار میں ذرا سنبھلنا ’ بڑے دھوکے ہیں اس راہ میں’’ حکومت سے گلے شکوؤں کی طویل کہانی کا عکاس ہے، انہوں نے اعلان کیا کہ وہ ایوان میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں گے۔

اپنے اعلان سے پہلے اختر مینگل نے حکومت کے خلاف چارج شیٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کو ہر سطح پر نظرانداز کئے جانے کا کیا جواز ہے۔ 56 ملین ڈالرز کی امداد آئی، بلوچستان کو کیا ملا ؟ ہمارے لوگ بچوں کو تعلیم سے اٹھا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ پڑھ لکھ کر ملازمت مانگیں گے تو پھر ہم کیا دیں گے۔ اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ حکومت معاہدے پر عملدرآمد کیوں نہ کر سکی۔ کیا بی این پی کے ساتھ چھوڑنے سے حکومت کو کوئی خطرہ تو نہیں۔ بی این پی کو حکومت منانے کی کوشش کرے گی۔ منا پائے گی یا اختر مینگل اور ان کی جماعت اپوزیشن کا حصہ بن جائے گی۔

یاد رہے حکومت سازی کے عمل میں بی این پی مینگل چھ نکاتی معاہدہ کے تحت حکومت کا حصہ بنی تھی جس میں مسنگ پرسنز کی بازیابی، ملازمتوں میں کوٹہ، بلوچستان کے وسائل کا حصہ، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد، افغان مہاجرین کے مسائل سمیت دیگر شامل تھے۔ مگر حکومت سازی کے بعد حکومت نے اسے سنجیدگی سے نہ لیا اور چونکہ حکومت سازی کے عمل میں سب سے زیادہ متحرک اور فعال جہانگیر ترین نظر آتے تھے اور معاہدوں پر ان کے دستخط بھی موجود تھے لہٰذا بعدازاں ان سے ہونے والے روابط میں وہ بھی اتحادیوں کو مطمئن نہ کر پائے اور اب نئی پیدا شدہ صورتحال میں تو خود جہانگیر ترین اپنی حکومت کے ہاتھوں زخمی ہو کر لندن پہنچ چکے ہیں اور ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اختر مینگل نے مذکورہ اعلان جہانگیر ترین کے رابطے کے بعد ہی کیا ہے جس میں جہانگیر ترین نے انہیں بتا دیا تھا کہ اب وہ اس پوزیشن میں نہیں رہے۔ لندن میں ان کا قیام اور لندن سے ان کے رابطے کسی نئے لندن پلان کا پیش خیمہ تو نہیں اور اس کی وجہ نمبرز سے زیادہ کچھ اور ہے کیونکہ ملک کو درپیش موجودہ صورتحال میں کوئی بھی حکومت میں آنے کا رسک نہیں لے سکتا۔

البتہ یہ ضرور ہوگا کہ اگر حکومت بی این پی مینگل کو منانے میں کامیاب نہیں ہوتی، جس کے امکانات زیادہ ہیں، تو پھر قدرتی طور پر بی این پی مینگل اپنا وزن اپوزیشن کے ساتھ ڈال سکتی ہے۔ بی این پی مینگل کے حکومت سے علیحدگی کے فیصلہ کو ہنگامی فیصلہ قرار نہیں دیا جا سکتا، البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ بی این پی مینگل کی علیحدگی کے بعد حکومت کے دیگر اتحادی خصوصاً مسلم لیگ ق بھی سر اٹھائے گی اور ایک مرتبہ پھر ان کی جانب سے اپنے تحفظات اور معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے کا شکوہ ضرور آئے گا اور اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ چودھری صاحبان اختر مینگل کے اس اعلان کے بعد ان سے رابطہ بھی کریں اور ان سے ان کے شکوے شکایات پر بات کریں کیونکہ چودھری صاحبان کی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ خاندان بلوچوں سے خصوصی تعلقات کا حامل ہے۔

بلوچستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ ہر گھر کی کہانی ہے۔ بلوچ اپنے پیاروں کی گمشدگی پر سراپا احتجاج ہیں اور یہ مسئلہ دہائیوں سے چلا آ رہا ہے ۔ یہ سلسلہ نہ رکا تو پھر بلوچستان کے عوام وفاق سے بہت دور ہو جائیں گے۔ یہ مطالبہ تو حقیقت میں وفاق کی مضبوطی کا مطالبہ ہے۔ جمہوری حکومت اگر اسلام آباد میں بیٹھ کر شہریوں کی گمشدگیوں کو نہیں رکوا سکتی تو پھر اختر مینگل کیلئے تقریباً ناممکن ہے کہ وہ حکومتی بینچوں پر بیٹھے رہیں۔ قوم کو عمران خان سے امید تھی کہ وہ ازخود ان اقدامات کو یقینی بنائیں گے جو بلوچوں اور پاکستان کو جوڑنے کا سبب بن جائیں۔ ایک وقت تھا کہ یہ پارلیمنٹ، اسٹیبلشمنٹ اور خود عمران خان اس پر عمل کیلئے سرگرم عمل تھے مگر بلوچستان کے معاملے میں اسلام آباد کے اندر دوہرے رویے والا معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

اب بھی وقت ہے حکومت اپنی اتھارٹی کو فعال بنائے۔ ابھی اختر مینگل کے چھ نکات جمہوری اور آئینی دائرہ کار کے اندر ہیں، حکومت سمیت طاقتور طبقات ڈریں اس وقت سے جب اختر مینگل کے چھ نکات شیخ مجیب کے چھ نکات بن جائیں۔ ہمیں تاریخ سے لیا گیا سبق دوبارہ دہرانا چاہئے اور عمل کرتے ہوئے بلوچ بھائیوں کو وفاق میں باوقار کردار دینا چاہئے۔ سی پیک کی معاشی سرگرمیوں کے بعد بلوچستان ہمارے دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ یہاں تھوڑی سی بے چینی ہمارے سٹرٹیجک مفادات پر کاری ضرب لگا سکتی ہے۔