حکومت سے علیحدگی: پرویز خٹک، اسد عمر کی اختر مینگل سے فیصلہ واپس لینے کی درخواست

Last Updated On 21 June,2020 10:03 am

اسلام آباد: (دنیا نیوز) بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی طرف سے وفاقی حکومت سے علیحدگی کے بعد حکومتی وفد سردار اختر مینگل کو منانے پہنچ گیا۔

یاد رہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سرداراختر مینگل نے 17 جون کو قومی اسمبلی میں خطاب میں پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے ساتھ کیے گئے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔

 وفاقی حکومت سے علیحدگی کے بعد سردار اختر مینگل کو منانے کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں، حکومتی وفد سردار اختر مینگل کو منانے پہنچ گیا، حکومت وفد کی سربراہی وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کر رہے ہیں جبکہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر بھی ان کے ہمراہ ہیں۔

ذرائع کے مطابق وزیر دفاع پرویز خٹک اور اسد عمر نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر منیگل سے فیصلہ واپس لینے کی درخواست کی ہے۔

ملاقات کے بعد گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ہماری ملاقاتیں تو ہوتی رہتی ہے، بی این پی مینگل کے تحفظات کو جلد دور کیا جائے گا، آئندہ بھی سردار صاحب کے ساتھ نشستیں ہوں گی۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ پارٹی کے فیصلہ کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا، اپنے تحفظات حکومتی وفد کے سامنے رکھ دئیے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اب تک کوئی براہ راست رابطہ نہیں کیا۔

اس موقع پر وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) یقین رکھتی ہے کہ پاکستان کے ہر حصہ کو ترقی اور حقوق نہ ملے تو ملک ترقی نہیں کر سکے گا۔

یاد رہے کہ دو روز قبل چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی نے بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل سے ملاقات کی تھی، یہ ملاقات پارلیمنٹ لاجز میں ہوئی تھی، اس ملاقات کے دوران انہوں نے حکومت سے اختلافات دور کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی پیشکش تھی۔

ذرائع کے مطابق اس ملاقات کے دوران سردار اختر مینگل نے چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی کو حکومت کی دوبارہ حمایت کرنے کے لیے فوری طور پر یقین دہانی سے معذرت کر لی تھی۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ میں آج ایوان میں پی ٹی آئی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کرتا ہوں۔ ہم ایوان میں موجود رہیں گے اور اپنی بات کرتے رہیں گے، ہم نے 2 سال تک اس تحریک انصاف کے ساتھ معاہدے پرعملدرآمد کا انتظار کیا ہے، مزید بھی کرنے کو تیار ہیں لیکن کچھ شروع تو کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک لڑکی جس کا بھائی لاپتا تھا اس کی بازیابی کےلیے وہ چارسال لڑتی رہی، اس لڑکی نے دو دن پہلے خود کشی کرلی، اس کی ایف آئی آرکس کے خلاف کاٹی جانی چاہیے؟

اختر منگل نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے، خدا کے لیے بلوچستان کو ساتھ لےکر چلنا چاہتےہیں تو ان معاہدوں پرعمل کریں۔ ملایا آپ کے ساتھ، گلہ نہیں کر رہے، صدر، سپیکر، ڈپٹی سپیکر، چیئرمین سینیٹ سمیت ہر موقع پر ووٹ دیا، اپوزیشن اور حکومتی بینچز کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ 10 ارب میں ہم بک گئے۔ آپ کا ایک ایک بال بلوچستان کا قرض دار نکلے گا بلوچستان آپ کا قرض دار نہیں ہوگا۔

بی این پی کے اختر مینگل کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ دو معاہدے ہوئے، 8 اگست 2018 کو پہلا معاہدہ ہوا، شاہ محمود، جہانگیرترین اور یارمحمد رند نے دستخط کیے، ہم بنی گالہ نہیں گئے بلکہ وہ کوئٹہ آئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ لا پتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے اور نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کرنےکا مطالبہ کیا تھا، ان دونوں معاہدوں میں کوئی بتادےکہ کوئی بھی ایک غیر آئینی مطالبہ ہے؟ کیوں آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا ؟ یہ مائنڈ سیٹ ہے جو 1948 سے چلا آ رہا ہے۔

پارٹی سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف سے ہاتھ ملایا ہرموقع پر ساتھ دیا،ووٹ بھی دیا مگر 2 معاہدے کرنے کے باجود ان پر عمل درآمد تو دور کی بات ، سنجیدگی سے غور تک نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ افغان امن کانفرنس بلائی گئی، بلوچستان امن کانفرنس کیوں نہیں بلائی جاتی، سیاسی جماعتیں بوسنیا اور فلسطین کے لیے تو احتجاج کرتی ہیں ، ٹماٹر ، چینی پر بحث تو ہوتی ہے، بلوچستان کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟

ان کا کہنا تھا کہ آپ کو بلوچستان کا پورا حصہ دینا ہوگا آج نہیں تو کل دینا ہوگا، موجودہ بجٹ میں بلوچستان تو کسی کھاتے میں ہی نہیں ہے، این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کابیان 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔