لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) سمارٹ لاک ڈاؤن کے عمل کا اتنا اثر ضرور ہوا ہے کہ اب متاثرین اور شرح اموات میں کمی آنا شروع ہو چکی ہے۔ کیا اس کمی کی شرح پر اطمینان کا اظہار کیا جائے یا احتیاطی تدابیر اور سمارٹ لاک ڈاؤن کے عمل کو مزید موثر بنایا جائے تاکہ اس وائرس سے مکمل نجات مل سکے۔ عالمی ادارہ صحت پھر یہ کہتا نظر آ رہا ہے کہ جن ملکوں اور علاقوں میں کورونا کی تباہ کاریوں میں کمی کا تاثر پایا جاتا ہے وہ اس پر اطمینان کا اظہار مت کریں۔ یہاں وبا کی اگلی لہر کا خطرہ موجود ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے وائرس کے نتیجہ میں جس بات پر زیادہ تشویش ظاہر کی ہے وہ وبائی بحران سے اقتصادی، سیاسی اور سماجی بحرانوں کا پیدا ہونا ہے، ادارہ کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے بحران کے خاتمہ کیلئے جس لیڈرشپ کی ضرورت تھی وہ نہ تو عالمی سطح پر پیدا ہو سکی اور نہ مقامی سطح پر لیڈرشپ نے اس کے تدارک میں بنیادی کردار ادا کیا۔
عالمی ادارہ صحت کی تشویش اور انتباہ پر پاکستان میں پیدا شدہ صورتحال کا تجزیہ کیا جائے تو اس بات پر دو آرا نہیں کہ یہ وبا فی الحال ہمارا پیچھا چھوڑنے والی نہیں، اس کی دوسری لہر کا خطرہ ابھی منڈلا رہا ہے، خود وزیراعظم عمران خان نے بھی اس امر کی طرف اشارہ دیا ہے کہ اگلا مرحلہ مشکل ہے مگر ہمیں ہمت نہیں ہارنی۔ ان کا زور ایس او پیز پر ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ایس او پیز پر عملدرآمد کتنا ضروری ہے یہ عام آدمی نہیں سمجھ پا رہا۔ عالمی ماہرین ابھی تک وبا کے اسباب کا تعین نہیں کر سکے یا انہوں نے دنیا کو بے خبر رکھا ہے جس کی وجہ سے مدت کا تعین نہیں ہو پا رہا کہ کب تک خود اور شہروں کو بند رکھنا ہے، کب معمولات زندگی پہلے کی طرح بحال ہوتے ہیں لیکن ہمیں بہرحال اس موذی وبا اور بلا سے لڑنا ہے اس وقت تک جب تک اس کی جڑیں اور اس کے اثرات ختم نہ ہوں۔
اس حوالہ سے جہاں حکومتی ذمہ داریاں ہیں وہاں ملک بھر کی سیاسی جماعتوں، معاشرتی طبقات اور رائے عامہ کے رہنماؤں کی بھی ذمہ داری ہے کہ خاص جذبہ اور ولولہ پر کاربند رہتے ہوئے خود کو اپنے عزیزو اقارب اور لوگوں کو اس سے بچانا ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ وزیراعظم یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ لاک ڈاؤن کے حوالہ سے حکومت میں کوئی کنفیوژن نہیں اور نہ ہی ان کے بیانات میں کوئی تضاد تھا یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کورونا جیسے بڑے چیلنج سے نمٹنے کیلئے حکومت کو جس بڑے دل اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کوساتھ لے کر چلنا تھا وہ نہیں کیا گیا، خصوصاً سندھ کے ساتھ غیر اعلانیہ لڑائی سے یہ تاثر رہا اگر لیڈرشپ زندگی موت کی اس جنگ میں بھی یکسو اور سنجیدہ نہیں تو اور کس معاملہ پر ہوگی۔ ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی کورونا کے ساتھ چلنا اور اس سے نمٹنا ہے، اب تک کے نتائج سے ثابت ہوا کہ حکومت اس چیلنج سے اکیلے نہیں نمٹ سکتی سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا، سنجیدہ حلقے شروع سے یہ رائے دیتے نظر آ رہے تھے کہ کورونا پر کسی سیاست کی گنجائش نہیں۔ متاثرین کی تعداد یا اموات میں کمی سے بحران ختم نہیں ہوگا اس سے بڑا بحران اور امتحان معیشت کی صورت میں منہ کھولے کھڑا ہے۔ کورونا کی اگلی لہر سے نمٹنے کیلئے قومی لائحہ عمل طے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔