کراچی: (رپورٹ : مظہر علی رضا) پاکستان سٹیل کے ذرائع کہتے ہیں کہ ادارے کی مشینری اس قابل نہیں کہ اسے چلایا جاسکے۔ برسوں سے بند پڑی ہوئی مشینری کو درست حالت میں لانے اور چلانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ درکار ہے۔ اس کے لیے نجکاری یا پھر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے سوا چارہ نہیں۔
پاکستان سٹیل کے حکام کہتے ہیں کہ ماضی میں سیاسی بنیاد پر بھرتیاں کی گئیں۔ ادارے کی پیداواری استعداد 11 لاکھ ٹن تھی جبکہ افرادی قوت اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔ ادارے میں تربیت یافتہ افرادی قوت کا فقدان تھا۔ بڑھتے ہوئے نان آپریشنل اخراجات بھی ایک بڑا مسئلہ تھے۔ گزشتہ ماہ تک پاکستان سٹیل کا خسارہ 305 ارب روپے تھا جبکہ واجبات 290 ارب کے تھے۔ یوں ادارے کا مجموعی خسارہ 600 ارب روپے تک ہے۔ پی ٹی آئی کے 22 ماہ کے دوران پاکستان سٹیل کے مجموعی خسارے میں 90 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ پی ٹی آئی کی حکومت پاکستان سٹیل کی قسمت بدلنے کے حوالے سے کچھ کرے گی۔
نو منتخب حکومت کے وزیر خزانہ اسد عمر تھے جو گزشتہ دور حکومت میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کے چیئرمین رہ چکے تھے اور پاکستان سٹیل کے حالات سے خوب واقف تھے ۔ پی ٹی آئی حکومت نے وزیر صنعت و پیداوار کا تقرر کرنے کے بجائے عبدالرزاق داؤد کو مشیر صنعت و پیداوار کی ذمہ داری سونپ دی۔ ان کے پاس تجارت کے علاوہ بھی قلم دان تھے۔ عبدالرزاق داؤد نے پاکستان سٹیل کی بحالی کے بجائے اس کی نجکاری میں زیادہ دلچسپی ظاہر کی۔
جون 2015 سے بند ادارے کے ملازمین کو جون 2020 تک یعنی پورے پانچ سال گھر بٹھا کر تنخواہ دی گئی۔ یہی ملازمین 2008 میں پاکستان سٹیل کو 10 ارب روپے کا منافع دے چکے تھے۔ 22 ماہ کے دوران ادارے کا مستقل سربراہ مقرر کیا جاسکا ہے نہ بورڈ آف ڈائریکٹرز ہی تشکیل دیا جاسکا ہے۔
پاکستان سٹیل کو بحال کرنے کے بجائے سب کی نظریں اس قیمتی اراضی، جیتی اور دیگر اثاثوں پر جمی رہی ہیں۔ سٹیل امپورٹ مافیا بھی اس ادارے کی بحالی کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتی تھی۔