نوے کی دہائی میں غلط فیصلوں سے نقصان ہوا، معیشت کمزور ہوتی رہی: وزیراعظم

Last Updated On 15 July,2020 11:34 pm

چلاس: (دنیا نیوز) وزیراعظم نے کہا ہے کہ نوے کی دہائی میں غلط فیصلوں سے بہت نقصان ہوا، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا، ڈالر کی قیمت اوپر گئی، معیشت کمزور ہوئی، ماضی میں ووٹ کو مدنظر رکھ کر منصوبے بنائے گئے۔

وزیراعظم عمران خان نے چلاس میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ماضی میں درآمدی تیل پر بجلی بنانے کے فیصلوں سے نقصان ہوا، مہنگی بجلی کی وجہ سے صنعتوں پر اثر پڑا، جب رقوم باہر جاتی ہیں تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا ہے، 20 ارب ڈالر کا خسارہ ہمیں ورثے میں ملا، ہماری کرنسی پر دباؤ آیا۔

عمران خان کا کہنا تھا اب ملک کا تیسرا بڑا ڈیم بننے جا رہا ہے، دیامر بھاشا ڈیم سے ترقی کی نئی منازل طے ہوں گی، ڈیم کیلئے اس سے بہتر جگہ ہو ہی نہیں سکتی، اس کے بعد ہم دریاؤں پر ڈیمز بنانے جا رہے ہیں، بجلی اور فرنس آئل سے بجلی پیدا کریں تو گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہوتا ہے۔

وزیراعظم نے مزید کہا کورونا کے باعث شٹ ڈاؤن سے بے روزگاری پھیلی، وزیراعلیٰ سیاحت کھولیں، این سی او سی کے ذریعے اجازت دے دیں گے، ہم نے ملک بھر میں 10 لاکھ درخت لگانے ہیں۔

 قبل ازیں وزیراعظم عمران خان نے دیامر بھاشا ڈیم کی سائٹ کا دورہ کیا اور کام کا جائزہ لیا۔ وزیر اعظم کو بھاشا ڈیم سے متعلق بریفنگ بھی دی گئی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی دورے کے موقع پر موجود تھے۔

 وفاقی وزراء فیصل واوڈا، علی امین گنڈا پور، سینیٹر فیصل جاوید، معاون خصوصی شہباز گل بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔ شرکا کو بھاشا ڈیم منصوبے اور پانی کی افادیت کے بارے بنائی گئی خصوصی ڈاکیو منٹری بھی دکھائی گئی۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ میگا منصوبے سے ساڑھے 4 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی جبکہ 81 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جا سکے گا۔

ترجمان کے مطابق دیا مر بھاشا ڈیم پراجیکٹ اپنی تعمیر کے مرحلے میں ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران دو بڑے ڈیمز مہمند اور دیا مر بھاشا پر کام شروع ہو چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق دیامر بھاشا ڈیم پاکستان کی واٹر، فوڈ اور انرجی سیکیورٹی کیلئے نہایت اہم منصوبہ ہے، دیامر بھاشا ڈیم پراجیکٹ 2028-29 میں مکمل ہوگا۔

ڈیم میں 81 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کے ذخیرے سے 12 لاکھ 30 ہزار ایکڑ اضافی زمین سیراب ہو سکے گی۔ دیامر بھاشا ڈیم کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ساڑھے 4 ہزار میگاواٹ ہے جبکہ منصوبہ نیشنل گرڈ کو ہر سال 18 ارب یونٹ پن بجلی فراہم کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: دیامر بھاشا ڈیم پاکستان کی واٹر، فوڈ اور انرجی سکیورٹی کیلئے اہم منصوبہ

دیامر بھاشا ڈیم پاکستان کی واٹر، فوڈ اور انرجی سکیورٹی کیلئے اہم منصوبہ ہے۔ منصوبے پر مجموعی طور پر 14سو ارب روپے سے زائد لاگت آئے گی۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے تربیلا اور غازی بروتھا سمیت دیگر پن بجلی گھروں کی سالانہ پیداوار پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

دیامر بھاشا ڈیم پراجیکٹ مختلف وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار تھا تاہم موجودہ حکومت نے اپنی ترقیاتی حکمت عملی میں پانی اور پن بجلی کے وسائل کو ترجیح قرار دیتے ہوئے اِس اہم منصوبے کی تعمیر کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے اس کی تعمیر شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

دیامر بھاشا ڈیم دوسرا کثیر المقاصد ڈیم ہے۔ یہ منصوبہ دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم سے تقریباً 315 کلومیٹر بالائی جانب جبکہ گلگت سے تقریباً 180 کلومیٹر اور چلاس شہر سے 40 کلو میٹر زیریں کی جانب تعمیر کیا جا رہا ہے۔

دیامر بھاشا ڈیم کے تین بنیادی مقاصد ہیں جن میں زرعی مقاصد کیلئے پانی کا ذخیرہ، سیلاب سے بچاؤ اور کم لاگت پن بجلی کی پیداوار شامل ہیں۔ پن بجلی گھروں سے ہر سال ڈھائی ارب یونٹ اضافی بجلی حاصل ہوگی۔

1974ء میں اپنی تکمیل کے بعد تربیلا ڈیم پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا آ رہا ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے تربیلا ڈیم کی عمر میں مزید 35 سال کا اضافہ ہوجائے گا۔ یہ پراجیکٹ مقامی لوگوں کیلئے بھی ایک نعمت ثابت ہوا ہے۔ سماجی ترقی کیلئے اعتماد سازی کے اقدامات کے تحت 78 ارب 50 کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں، مقامی لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

واپڈا کے مطابق دیا مر بھاشا ڈیم پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے کنسلٹنسی سروسز کا 27 ارب 18 کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت کا ٹھیکہ دیا مر بھاشا کنسلٹنٹس گروپ نامی اشتراک کار کو دیا گیا ہے۔ اس کنسلٹنٹ گروپ میں 12 کمپنیاں شامل ہے، جن کی مرکزی کمپنی نیسپاک ہے۔ 175 ارب روپے ڈیم کے لیے زمین حاصل کرنے اور ان کی ادائیگیوں، متاثرین کی آباد کاری اور مقامی ترقی کے لیے مختص کئے گئے ہیں۔

791 ارب روپے دیامر بھاشا ڈیم کے لیے پاور حاصل کرنے اور دیگر ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ 480 ارب روپے تانگیر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے مختص ہیں۔ پاکستان دیا مر بھاشا ڈیم کو بجلی اور پانی کی ضرورت کے لیے ناگزیر سمجھتا ہے۔ 60 کی دہائی کے بعد اب تک پاکستان نے کوئی بھی بڑا ڈیم تعمیر نہیں کیا ہے۔

واپڈا کے مطابق اس منصوبے سے نہ صرف صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے ڈی آئی خان کا 6 لاکھ ایکڑ کا رقبہ قابل کاشت ہو جائے گا بلکہ مجموعی طور پر 3 ملین ایکڑ زرعی رقبہ بھی سیراب ہو سکے گا۔ ڈیم دریائے سندھ کے پانی کا قدرتی بہاؤ استعمال کرتے ہوئے اس پانی کا 15 فیصد استعمال کرے گا۔

ڈیم کی تعمیر سے 30 دیہات اور مجموعی طور پر 2200 گھرانے جن کی آبادی کا تخمینہ 22 ہزار لگایا گیا ہے متاثر ہوں گے جبکہ 500 ایکڑ زرعی زمین اور شاہراہ قراقرم کا سو کلومیٹر کا علاقہ زیرِ آب آئے گا۔ ان نقصانات کی تلافی اور متاثرہ آبادی کی آباد کاری کے لیے 9 مختلف منصوبے شروع کیے جائیں گے۔
 

Advertisement