لاہور: (تحریر: طارق حبیب، احمد ندیم، مہروز علی خان) اقوام عالم کی تاریخ میں کئی قومیں ایسی گزری ہیں جو تاریخ کی کتب میں صرف اپنے مظالم و خون ریزی کی وجہ سے پہچانی جانی جاتی ہیں۔ ان قوموں کے کریڈٹ پر کوئی تعمیری کام یا دنیا میں امن کے لیے کوئی مثبت قدم موجود نہیں ہے۔ تاتاریوں اور منگولوں کے مظالم ایک لمبے عرصے تک بطور حوالہ استعمال ہوتے رہے، عیسائی آرتھوڈوکس کے اپنے ہم مذہب اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں پر مظالم بھی دنیا کبھی بھول نہیں پائی، ہٹلر کی یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کو آج بھی ہولو کاسٹ کی اصطلاح سے یاد کیا جاتا ہے، اسی طرح اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم جو اپنی پوری شدت کے ساتھ آج بھی جاری ہیں اور کئی نسلیں ان انسانیت سوز ظلم و جبر کی تاریخ کی گواہ ہیں۔ مگر مقبوضہ کشمیر کا معاملہ ان سب سے الگ ہے، منگولوں کی درندگی، عیسائی آرتھوڈوکس کی حیوانیت، ہٹلر کی خونخواری اور اسرائیل کی شیطانیت کا اگر کہیں ملاپ دیکھنا ہو تو مقبوضہ کشمیر میں دیکھا جاسکتا ہے جو سات دہائیوں سے جاری ہے اور مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ گزشتہ ایک سال سے مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو ایک ایسے خطے میں بدل دیا ہے جہاں کوئی گھرانہ ایسا نہیں ہے جس نے بھارتی فوجیوں کی درندگی کا نشانہ بننے والے اپنے کسی پیارے کو دفن نہ کیا ہو۔
حال ہی میں ایک تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، تین سالہ معصوم بچہ اپنے دادا کی لاش پر بیٹھا تھا اور اپنے تئیں دادا کو بھارتی فوج کی گولیوں سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ ایک دوسرے تصویری منظر میں یہ بچہ بھارتی فوجی کی جانب جا رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں پتھر تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ بچہ بھارتی فوجی سے اپنے دادا کا بدلہ لینے جا رہا ہے۔ یہ تصاویر مقبوضہ کشمیر کے علاقے سوپور کی تھی جہاں بھارتی فوج کی جانب سے جعلی مقابلوں کے نام پر درجنوں کشمیریوں کو شہید کیا جاچکا تھا۔ یہ تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے سے قبل بھارت دعویٰ کر رہا تھا کہ اس بچے کے دادا کو مبینہ دہشت گردوں نے مارا ہے مگر جیسے ہی سوشل میڈیا پر یہ تصاویر شیئر ہوئیں تو بھارتی جھوٹ کی قلعی کھل گئی اور پوری دنیا نے بھارت کی لعنت ملامت شروع کر دی۔ ان تصاویر نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا مگر بھارت اور بھارتی میڈیا مکمل ڈھٹائی کے ساتھ اس واقعہ سے لاتعلقی کا اعلان کرتا رہا تو دوسری جانب اندرونی طور پر انکوائری شروع کر دی کہ یہ تصاویر کس نے وائرل کی ہیں۔ اگرچہ سوپور کے اس بچے کی تصویر ان چند تصاویر میں سے ایک تھی جس نے دنیا بھر میں کہرام برپا کیا تھا مگر مقبوضہ کشمیر میں ایسی ہزاروں تصاویر ہیں جو آئے روز منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ بھارتی مظالم کا شکار بچوں، خواتین، بزرگوں اور نوجوانوں کی تصاویر بین الاقوامی میڈیا کی ہیڈ لائنز اور اشاعتی میڈیا کی کور اسٹوریز بھی بنتی رہی ہیں۔
کشمیری دنیا کی وہ واحد قوم ہے جس نے عالمی تاریخ کا طویل ترین فوجی محاصرہ دیکھا ہے، آج بھی بدستور بھارتی فوج کے محاصرے میں ہے اور انتہائی ہمت و استقامت سے اس کا مقابلہ کر رہی ہے۔ دنیا میں کورونا وائرس نے تباہی مچائی تو کئی ممالک کو چند دنوں یا ہفتوں کے لیے اپنے مختلف شہروں میں لاک ڈائون لگانا پڑا تھا اور عالمی سطح پر بھی مختلف ممالک دنیا سے کٹ کر رہے گئے تھے۔ اس دوران ان ممالک کی جانب سے معیشت کی تباہی، عوام کی بدحالی کی رپورٹس منظر عام پر آتی رہیں مگر مقبوضہ کشمیر میں محصور کشمیری گزشتہ ایک سال سے سخت لاک ڈائون سے گزر رہے ہیں اور بھارت نے اس خطے میں بلیک آؤٹ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے دنیا کشمیر کی اصل صورتحال سے آگاہ نہیں ہو پا رہی۔ صرف ایک سال میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں سینکڑوں نوجوانوں کو شہید و ہزاروں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قلت کے باعث بھوک اور فاقوں کے حالات پیدا ہوچکے ہیں۔ کشمیری یہ سب کچھ برداشت کرتے ہوئے عالمی برادری کو جگانے کے لیے اپنی مزاحمت سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ بھارت کی جانب سے کشمیری اراضی پر قبضہ اور ہندتوا کے پیروکاروں کی کشمیری علاقوں میں منتقلی کے خلاف عوام بدستور مزاحمت کر رہے ہیں۔
ویسے تو بھارت کے جمہوریت کا علمبردار ہونے کا ڈھول پہلے ہی پھٹ چکا تھا اور دنیا متعدد مواقع پر بھارت کا اصل چہرہ دیکھ چکی تھی مگر 5 اگست 2019 ء وہ سیاہ ترین دن تھا جب بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے، کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا جس کے تحت کشمیریوں کا اپنا علیحدہ آئین، علیحدہ پرچم اور تمام قانونی و آئینی معاملات میں علیحدہ نقطہ نظر رکھنے کی کم از کم آئینی طور پر ہی سہی، آزادی تھی۔ اس آرٹیکل کے خاتمے کے ساتھ کشمیریوں کے بنیادی حقوق جو بھارت ایک طویل عرصے سے سلب کیے ہوئے ہے، قانونی و آئینی طور پر بھی ختم کر دیئے گئے۔ بھارت نے یہ قدم اچانک نہیں اٹھایا بلکہ نریندر مودی کی قیادت میں بھارت اس کی طویل عرصے سے منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ اس عمل کے پیچھے ہندتوا کا انتہا پسندانہ نظریہ موجود تھا۔ اس نظریے کے تحت ایک جانب تو بھارت کے اندر مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں سے بنیادی حقوق بھی چھین لیے گئے اور پھر عالمی برادری نے دیکھا کہ اس انتہا پسندانہ نظریے کے منفی اثرات سے بین الاقوامی سرحدیں بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔ جب مودی کو دوبارہ حکومت ملی تو اس نے سب سے پہلے کشمیریوں پر وار کیا اور ان سے ان کی علیحدہ و خصوصی شناخت چھین لی۔ یہ عمل ہندتوا نظریے کا پرچار کرنے والی بی جے پی کے ایجنڈے میں شامل تھا۔ بھارت جانتا تھا کہ کشمیر میں اس کے خلاف شدید ردعمل سامنے آئے گا۔ اس لیے آرٹیکل 370 کی منسوخی سے قبل ہی 25 جولائی 2019 کو خصوصی دستے مقبوضہ کشمیر پہنچا دیئے گئے تھے جس کے بعد یہاں موجود بھارتی فوج کی تعداد 9 لاکھ سے بڑھ گئی تھی۔ فروری 2019 کو پلوامہ حملے کے ڈرامے کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی سرگرمیاں بڑھا دی تھیں اور ان ہی اقدامات کو طول دیتے ہوئے یکم اگست سے مختلف علاقوں میں نیم کرفیو کا نفاذ کر دیا گیا تھا۔ بظاہر سکیورٹی صورتحال کو اپنے فوجیوں کے ذریعے قابو میں کرنے کے بعد بھارت نے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کی منسوخی کا اعلان کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ اعلان ہوتے ہیں کشمیری عوام سمندر کی طرح گلیوں محلوں، سڑکوں چوراہوں پر جمع ہو کر فیصلے کے خلاف مظاہرے شروع کر دئیے۔ بھارت نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا۔ بھارت فوجی طاقت کے ذریعے کشمیریوں کو احتجاج سے روکنے کی کوششیں کر رہا تھا مگر اس میں ناکام رہا۔ کشمیری کسی شہر میں بھی بھارتی فوج کو خاطر میں نہیں لا رہے تھے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے فوری طور پر مقبوضہ کشمیر میں مواصلات کا نظام بند کر دیا گیا، ٹرانسپورٹ، مکمل طور پر روک دی گئی۔ کاروبار زندگی ختم کر دیا گیا۔ غرض یہ کہ کشمیریوں کو گھروں میں محصور کر کے گلیوں میں فوجی اہلکار تعینات کر دیئے گئے۔
بھارت کی جانب سے کشمیریوں پر مسلط کیے گئے اس لاک ڈاؤن میں انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کے ذریعے بیرونی دنیا سے کشمیریوں کا رابطہ ختم کر دیا گیا تھا۔ کشمیری کی دائیں اور بائیں بازو کی مقامی قیادت کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ ان اقدامات کی وجہ سے اشیائے خوردونوش کی قلت پیدا ہوگئی، ہسپتالوں میں مریضوں کو ادویات کی قلت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ مظاہرین کو روکنے کے لیے بغیر کسی روک ٹوک کے گولیاں برسائی جا رہی تھیں جس سے جانی نقصان بڑھتا گیا۔ 5 اگست 2019 کے بعد سے اب تک کے دوران بھارت 213 کشمیریوں کو شہید کرچکا ہے جبکہ 1576 شدید زخمی ہیں۔ اس سے قبل بھارت کی جانب سے کشمیری نوجوانوں پر پیلٹ گن کے استعمال کے ذریعے انھیں بینائی سے محروم کرنے کے مذموم منصوبے پر کام کیا گیا تھا جس میں سینکڑوں نوجوان اور معصوم بچے بصارت سے محروم ہوگئے تھے۔ پیلٹ گنز کے استعمال کو گزشتہ ایک سال کے دوران بھی جاری رکھا گیا اور 379 افراد کوپیلٹ گنز سے نشانہ بنایا گیا۔ اعدادوشمار کے مطابق بھارت کی جانب سے اس لاک ڈاؤن کے دوران 113 بچوں کو یتیم کو 78 خواتین کو بیوہ کر دیا گیا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مظاہروں کے دوران تقریبا 21 ہزار نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا اور گزشتہ 6 ماہ کے دوران 37 جعلی مقابلوں میں گرفتار نوجوانوں سمیت 111 کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا۔ ان مقابلوں کے دوران بھارتی فوج کی جانب سے بارودی مواد کا بھی استعمال کیا گیا جس کے بعد 1121 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔
بھارت صرف آرٹیکل کی منسوخی تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اس کے بعد کشمیریوں کو مزاحمت سے روکنے کے لیے مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہر ہتھکنڈا آزمایا۔ بھارت کی قابض حکومت نے 5 اگست کے غاصبانہ اقدامات کے بعد جہاں کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے دیگر ہتھکنڈے استعمال کیے۔ وہیں 5 اگست کے بعد سے اب تک 450 سے زیادہ کشمیریوں کے بھارت سے باہر سفر پر پابندی لگائی ہے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے بیرون ملک سفر کی پابندی کا شکار ہونے والے 450 کشمیریوں میں کاروباری افراد، صحافیوں، وکیلوں اور سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ ان میں سے کچھ افراد کو بھارتی قابض حکام نے نئی دہلی کے انٹرنیشنل ہوائی اڈے پر روک دیا تھا۔ ان میں سے کسی کو بھی اس پابندی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی، جبکہ انہیں سفر کرنے والے ملک سے قانونی ویزا ملنے اور ایئر لائن سے بورڈنگ پاس تک موجود ہونے کے باوجود سفر کی اجازت نہیں دی گئی۔
فورم فار ہیومن رائٹس ان جے اینڈ کے‘ نامی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ کشمیر کئی لحاظ سے بھارتی جمہوریت کے لیے ایک امتحان رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت اس امتحان میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔ تنظیم نے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کیے جانے کے بعد گزشتہ برس اگست سے رواں سال جولائی کے دوران کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ تقریباً ایک برس سے جاری لاک ڈاون کی وجہ سے کشمیری عوام کی صحت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور ان کے بنیادی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی۔
کشمیریوں کی مزاحمت کو توڑنے کے لیے کشمیری معیشت کی تباہی کا اندازہ صرف اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے ابتدائی دو ماہ میں کشمیری معیشت کو تقریباَ 2 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا جبکہ اسی مرحلے میں ایک لاکھ 50 ہزار سے زائد کشمیری بے روزگار ہوچکے تھے۔ اسی طرح انٹرنیٹ سروسز کی بندش نے ایک جانب تو کشمیریوں کو بین الاقوامی برادری سے کاٹ دیا تو دوسری جانب بیرون ملک مقیم کشمیریوں کو اس قیامت کے ماحول میں اپنے پیاروں سے رابطوں سے بھی روک دیا۔ انٹرنیٹ کی سروسز بند ہونے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں جام ہوگئیں جبکہ عام کشمیریوں کے لیے بینکوں سے آن لائن ٹرانزیکشن بھی رک گئی۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ نازک صورتحال کا سامنا کشمیری خواتین اور بچے کر رہے تھے۔ بھارتی حکومت کے اس عمل میں بھارتی عدالتوں نے بھی سیاہ باب رقم کیے۔ مختلف پیرائے میں جمع ہونے والی تین درخواستیں پہلے تو سماعت کے لیے ایک ماہ بعد طلب کی گئیں پھر مختلف حربے استعمال کرتے ہوئے مسترد کر دی گئیں۔ بھارتی شب خون کے متاثرین نے جب آرٹیکل کی منسوخ کے بھارتی اقدام کے خلاف التواء کے لیے درخواست دی تو بھارتی اعلیٰ عدالت نے آئینی کمیٹی کے حوالے کر کے تاخیری حربہ استعمال کیا جبکہ میڈیا پر پابندیوں کے خلاف درخواستیں مسترد کر دیں اور اسی طرح کشمیری نوجوانوں کو حبس بے جا میں رکھنے کی درخواستیں یہ کہہ کر مسترد کر دیں کہ کشمیر میں ایسی صورتحال نہیں ہے جیسی بتائی جا رہی ہے۔
جب یہ صورتحال جاری تھی تو عالمی برادری نے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی یا ایسا معمولی ردعمل دیا جا رہا تھا کہ جس کی بھارت کو ذرا بھی پرواہ نہ تھی۔ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، او آئی سی، یورپی یونین، غرض کوئی بھی بھارت کے اس اقدام کی سخت انداز میں مذمت نہ کرسکا۔ عالمی سطح پر مضبوط ردعمل نہ آنے کی وجہ سے بھارت کو شہہ ملی اور اس نے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے ساز ش شروع کر دی۔ اس کے لیے اسرائیلی طریقے پر عمل کیا جا رہا ہے جس طرح اسرائیل نے فلسطین میں یہودیوں کو لا کر آباد کیا تھا۔ پہلے مرحلے میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں 37 صنعتی زون بنانے کی آڑ میں 1200 ایکڑ زمین قبضے میں لے لی ہے اور اس میں بسانے کے لیے 30 ہزار بھارتیوں کو ڈومی سائل جاری کیے گئے ہیں جن میں 95 فیصد ہندو شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بڑی تعداد ہندو انتہا پسندوں کی ہے۔
آئین کے آرٹیکل 35 اے کے خاتمے کے بعد بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں آبادیاتی تناسب کی تبدیلی کیلئے ایک انتظامی حکم نامے کے تحت جموں وکشمیر (جے کے یونین ٹریٹری) کیلئے نیا اقامتی قانون لایا گیا۔ اس قانون کے تحت وہ سبھی غیر کشمیری (ہندوستانی) جموں وکشمیر میں اقامتی حقوق کے حقدار ہوگئے ہیں، جنہوں نے یہاں مسلسل 15 سال تک سکونت اختیار کی ہو۔ ملازمت کے سلسلے میں جموں وکشمیر میں 10 سال تک رہنے والے سبھی مرکزی ملازمین اوران کے بچے بھی اب مقامی قرار پائے ہیں۔ وہ طلبا ء بھی جموں و کشمیر کے اقامتی سمجھے جائیں گے جو یہاں 7 سال تک زیر تعلیم رہ کر بورڈ امتحانات میں شامل ہوئے ہوں۔ بھارتی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں وضاحت کی گئی ہے کہ ایسے تمام مرکزی محکموں کے افسر یا ملازمین، آل انڈیا سروسز لیول افسران، پبلک سیکٹر اداروں و خودمختاراداروں کے افسر و ملازمین، پبلک سیکٹر بینکوں میں کام کرنے والے افسران یا ملازمین، سنٹرل یونیورسٹی کے حکام اور مرکزی سرکار کے دوسرے تحقیقی اداروں میں تعینات رہنے والے افسر و ملازمین، جنہوں نے جموں وکشمیرمیں کم سے کم 10 سال ملازمت کے لئے سکونت اختیارکی ہو، وہ اوران کے کے اہل خانہ بھی جموں و کشمیرمیں مستقل سکونت اختیار کرنے اور یہاں کے اقامتی حقوق حاصل کرنے کے اہل ہو گئے ہیں۔ اب ڈومیسائل ایکٹ کے بعد بھارتی حکومت نے غیر ریاستی افراد کو جموں و کشمیر میں زمین خریدنے کا حق دینے کے لیے لینڈ ایکٹ لانے کا بھی اعلان کیا تھا تاکہ جموں کشمیر میں آبادیاتی کے تناسب کو تبدیل کرنے میں تیزی لائی جا سکے۔
اس سلسلے کا پہلا قدم 24 جولائی 2020 کو اٹھایا گیا ہے، جب جموں کشمیر ریونیو ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ایک لیٹر جاری کیا گیا، جس میں بھارتی عسکری اداروں کو ریاست جموں و کشمیر کے اندر وسیع پیمانے پر اراضی کے حصول کے لیے محکمہ داخلہ سے کسی بھی عدم اعتراض سرٹیفکیٹ (این او سی) کی ضرورت سے مستشنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ اس حکم نامے کے بعد بھارتی فوج، بی ایس ایف ، سی آر پی ایف اور اسی طرح کے دیگر ادارے جموں و کشمیر میں بلا رکاوٹ بڑے پیمانے پر اراضی حاصل کر سکیں گے۔ اسی طرح جموں و کشمیر اور لداخ کو علیحدہ علیحدہ یونین ٹیریٹری قرار دیدیا جس کے بعد پاکستان کے ساتھ ساتھ چینی سرحد پر بھی بھارت کی کشیدگی شروع ہوگئی۔
بھارت نے کشمیر پر شب خون مارنے کے بعد عالمی توجہ ہٹانے کے لیے فوری طور پر لائن آف کنٹرول پر کشیدگی پیدا کر دی۔ لائن آف کنٹرول پر آئے دن گولہ باری معمول بن گئی۔ گزشتہ ایک سال کے دوران بھارت نے 233 بار لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کی خلاف ورزی کی جس کا پاک فوج کی جانب سے سخت جواب دیا گیا۔ بھارت کے پاکستانی علاقوں پر عام شہریوں پر گولہ باری سے 7 عام شہری شہید ہوئے۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت نے اپنے تمام پڑوسیوں بشمول چین، نیپال، بنگلہ دیش سے کشیدگی پیدا کرلی ہے۔ لداخ کے معاملے پر چین کے ساتھ حالیہ دو ماہ میں شدید کشیدگی رہی اور متعدد جھڑپیں ہوتی رہیں۔ ایک جھڑپ میں بھارت کے 51 فوجی مارے گئے تھے جو 1963 کی جنگ کے بعد لداخ میں چین کے ساتھ جھڑپ میں بھارت کا سب سے بڑا جانی نقصان تھا۔
کشمیریوں نے ان سخت حالات میں بھارتی مظالم کے ساتھ ساتھ کورونا کا بھی مقابلہ ایسے حالات میں کیا جب بھارت نے کشمیریوں کا ہسپتالوں میں داخلہ بھی بند کر رکھا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں 19 ہزار 696 کورونا کیسز سامنے آئے جن میں سے 325 جاں بحق ہوگئے۔کورونا سے متاثرہ ان مریضوں کو بھارت کی جانب سے سہولیات فراہم نہیں کی گئیں اور رپورٹ کے مطابق مریضوں کی اکثریت گھروں میں قرنطینہ میں تھی۔ کشمیریوں کو گزشتہ سال سے ہی مساجد میں نمازوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ عیدین کی نمازوں کی ادائیگی کی بھی اجازت نہیں ملی۔ کشمیریوں کی جدوجہد بتاتی ہے کہ وہ اپنی عیدیں بھارتی تسلط سے آزاد ہو کر منانے کا تہیہ کرچکے ہیں۔