لاہور: (تحریر: طارق حبیب، احمد ندیم، مہروز علی خان) ہندوتوا کی ابتدا تو ایک سیاسی تحریک کے طور پر ہوئی تھی جس نے بعد ازاں ایک شدت پسند تنظیم کی شکل اختیار کی۔ سیاسی نظریہ ہندوتوا میں آر ایس ایس کے علاوہ ہندو مہا سبھا، وشوا ہندو پریشد اور دیگر انتہا پسند ہندو تنظیمیں شامل ہیں اور ان جماعتوں کو مجموعی طور سنگھ پریوار کہا جاتا ہے۔ سنگھ پریوار کی جماعتیں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے پلیٹ فارم سے انتخابی سیاست میں حصہ لیتی ہیں۔ بی جے پی کے تمام سیاستدانوں کا تعلق آر ایس ایس یا سنگھ پریوار کی کسی نہ کسی جماعت سے ہوتا ہے۔ ان کا بنیادی نعرہ ہندو راشٹریہ (ہندو مملکت) اور اس کیلئے ہندوتوا کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ ہندو رضاکار تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا باقاعدہ قیام 1925 میں ہوا۔ اس تنظیم کے رضا کاروں کو باقاعدہ دفاع کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس کے قیام کے بعد ہندو مسلم فسادات میں اضافہ دیکھنے کو ملا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تنظیم انتہا پسند جنونی ہندوؤں کی جماعت کے طور پر ابھری۔ تقسیم ہند کے دوران مسلمانوں کے قتل عام میں یہ تنظیم پیش پیش رہی۔ برطانوی دور حکومت میں اس تنظیم پر ایک مرتبہ اور تقسیم ہند کے بعد اس پر تین مرتبہ عقائد اور حرکات و سکنات کے باعث پابندیاں بھی عائد کی گئیں۔ بھارت کی تقسیم کے فوراَ بعد مہاتما گاندھی کو آر ایس ایس سے منسلک انتہاپسندوں نے 3 جنوری 1948 کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ گاندھی کی ہلاکت کے بعد یہ تنظیم زیر عتاب آئی اور 4 فروری 1948 کو بھارتی حکومت نے آر ایس ایس کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ اس تنظیم نے 1949 میں پابندی کے خاتمے کے لیے اپنا آئین لکھا جس کی شق 3 اور 4 میں اپنی مذہب اور ثقافت کی بحالی کے لیے پر امن اور قانونی طریقے سے کوشش کرنے کا عہد شامل تھا۔ اس تنظیم کے ہفتہ اور ماہوار شائع ہونے والے مواد میں تنگ نظری اور عدم برداشت واضح تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اس کی بھارتی مسلمانوں پر خصوصی نظر رہی۔ بھارتی مسلمانوں کو یہ تنظیم اپنے ادبی مواد میں اکثر ناقابل اعتبار قرار دیتی رہی ہے۔ انہوں نے قوم پرست مسلمان رہنماؤں مولانا ابوالکلام آزاد اور رفیع احمد قدوائی پر دینی تعلیم پر زور دینے کی وجہ سے غدارانہ سرگرمیوں کے الزام بھی عائد کئے۔ آر ایس ایس پر دوبارہ پابندی سنہ 1975 میں اس وقت لگائی گئی جب اس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے تمام بنیادی حقوق معطل کرتے ہوئے تنظیم کی ساری لیڈرشپ کو جیل بھیج دیا۔ آر ایس ایس نے سنہ 1980 کی دہائی کے اواخر میں اپنے ذیلی گروہوں کے ذریعے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ ہندو مندر تعمیر کرنے کے لیے ایک بہت بڑی مہم چلائی۔ شدت پسند ہندو گروپوں بشمولِ آر ایس ایس کے حامیوں نے بابری مسجد کو دسمبر 1992ء میں مسمار کر دیا۔ آر ایس ایس پر تیسری بار پابندی عائد کی گئی لیکن عدالت نے اس فیصلے کو رد کر دیا۔
دراصل ہندوتوا نظریے میں نسلی اور علاقائی برتری کا تصور ہے۔ آر ایس ایس رہنما ایم ایس گول واکراپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ’ہندوستان ہندوؤں کی زمین ہے اور یہاں صرف ہندوؤں کو پھلنے پھولنے کا حق ہے ۔ بھارت میں آباد تقریباَ بیس کروڑ مسلمان ہندتوا کی بڑھتی تحریک سے خود کو انتہائی غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں اور آئے دن کے حملوں سے دہشت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال 2002 میں ہونے والے گجرات فسادات ہیں جب نریندر مودی وہاں کے چیف منسٹر تھے۔ ان فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ سانحہ گجرات کے بعد ہی عالمی ذرائع ابلاغ میں نریندر مودی کو ’ قصائی‘ کے نام سے پکارا گیا تھا اور امریکہ نے ویزہ تک دینے سے انکار کر دیا تھا۔ انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو انسانیت کا قاتل بھی قرار دیا تھا۔
آر ایس ایس کے عزائم کو بے نقاب کرتے ہوئے بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے مئی 2017 میں خبردار کیا تھا کہ راشڑیہ سوائم سیوک سنگھ جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جموں کے بعد کشمیر آر ایس ایس کا اگلا ہدف ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں نریندر مودی کے راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ سے متاثر نظریات کشمیریوں کو ان کے حق خودارادیت سے محروم کرنے، مقبوضہ علاقے میں غیر انسانی لاک ڈاؤن نافذ کرنے اور کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشتگردی قرار دینے کے حوالے سے انتہائی واضح ہیں۔ مودی سرکار نے آر ایس ایس کے ذریعے مقبوضہ وادی میں ہندوؤں کو بسانے کی سعی بھی شروع کر دی ہے تاکہ مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل سکیں۔
اب آر ایس ایس کا ہندتوا نظریہ ایسے درندے کا روپ دھار چکا ہے جس کے منہ کو خون لگا ہوا ہے اور وہ مسلسل اقلیتوں کو چیر پھاڑ کر کھانے کی تاک میں رہتا ہے۔ عام مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں کو بھارت کی سڑکوں پر زندہ جلانا، لاٹھیوں سے مار مار کر قتل کرنا، کرنٹ لگا کر مارنا ، آر ایس ایس کے معمولات میں شامل ہوچکا ہے۔ یہ معاملہ صرف نچلے درجے تک محدود نہیں ہے، ان ہی نظریات پر قائم مودی حکومت بین الاقوامی سرحدوں پر یہی رویہ اپنائے ہوئے ہے اور پاکستان، چین، بنگلہ دیش اور نیپال کے ساتھ ایک ساتھ سرحدوں پر جھڑپیں میں ملوث ہے۔