اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں قابل تجدید توانائی پالیسی کی منظوری دے دی گئی ہے۔
اجلاس میں آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2002ء میں مجوزہ ترامیم پر غور کیا گیا۔ وزارت پیٹرولیم کو اوگرا میں صوبوں کی تجاویز شامل کرنے کا ٹاسک سونپ دیا گیا جبکہ لوئر چشمہ رائٹ کینال پنجاب کے سپرد کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
اجلاس میں نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ اینڈ بیسک ایجوکیشن کمیونٹی کے مستقبل کے کردار پر غور کرتے ہوئے سلوکوں اور اساتذہ کو وزارت برائے وفاقی تعلیم سے متعلقہ صوبائی تعلیمی محکموں میں منتقل کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا۔
مشترکہ مفادات کونسل نے موجودہ مالی سال کے اختتام سے قبل یہ عمل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ وزارت وفاقی تعلیم صوبوں کے ساتھ مشاورت سے سکولوں کی منتقلی اور انضمام کا منصوبہ مرتب کرے گی۔
کورونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی بھی اجلاس میں پیش کی گئی۔ کونسل نے کورونا سے نمٹنے کے لیے حکومتی حکمت عملی کی تعریف کی۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ خام تیل، کنڈینسیٹ اور قدرتی گیس کا ونڈ فال لیوی کے تحت 50 فیصد حصہ صوبوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اجلاس میں سال 2017ء، 2018ء، 2019ء کی سالانہ رپورٹس قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کرنے منظوری دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق اجلاس کے دوران سی سی آئی کے 41 ویں اجلاس کے فیصلوں پر عملدرآمد کا جائزہ لیا گیا۔
مختلف صوبوں سے گیس کی پیداوار، کھپت اور ٹرانسمیشن کے اعدادوشمار اجلاس میں پیش کیے گئے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ موسم سرما میں 2021-22ء تک ملک کو گیس کی بڑی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گیس بحران سے بچنے کے لئے پیداوار، گھریلو گیس کے تحفظ کے لیے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔
وفاقی حکومت اس متوقع چیلنج سے نمٹنے کے لیے صنعت کے ماہرین کا ایک اجلاس منعقد کر رہی ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ قومی رابطہ کمیٹی کے فیصلوں پر ایس او پیز صوبوں کو فراہم کی جائیں گی۔ صوبے ایس او پیز کی روشنی میں مختلف شعبوں کو کھولنے کا نوٹیفیکیشن جاری کریں گے۔