لاہور: (دنیا میگزین) گوادر کا ساحل ئی صدیوں سے ناصرف مکران بلکہ پورے برصغیر اور مشرق وسطیٰ کی باہمی تجارت اور نقل و مل کا ایک ذریعہ اور ان تک رسائی کا اہم وسیلہ رہا ہے۔
ماضی قریب میں برطانوی بحری جہاز برٹش انڈیا سکیم نیوی گیشن کے زیر اہتمام ہر پندرہ دن بعد یہاں لنگر انداز ہوتے تھے۔ یہ ساحل ہندوستان، چین، اومان، سعودی عرب، ایران، کویت، بحرین، قطر اور یمن سے آنے والے بحری تجارتی راستوں کا ایسا سنگم ہے جو نہ ماضی میں کبھی گم ہوا اور نہ ہی مستقبل میں کبھی اوجھل ہو پائے گا۔
نہر سوئیز کی بطور تجارتی بحری شاہراہ استعمال کی وجہ سے میڈی ٹیرینین پاننوں سے خلیج آنے والے تجارتی راستے بھی اب اس کی دسترس سے باہر نہیں رہے۔
گوادر، ‘’گوات در’’ یعنی ‘’ہوا کا دروازہ یا راستہ’’، تربت شہر سے صرف 120 کلومیٹر اور مغرب میں ایران کے صوبہ سیستان کی بندرگاہ چاہ بہار سے صرف 170 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مطلع بالکل صاف ہو تو پشکان کی کسی بھی بلند پہاڑی سے مسقط شہر کی روشنیاں جھلملاتی دکھائی دے جاتی ہیں۔
1783ء سے 1958ء تک خان آف قلات کی دریا دلی اور نظر عنایت کی وجہ سے گوادر، اومان کی ملکیت رہا۔ اس سے بہت پہلے قرون وسطیٰ میں مکران عہد داؤد علیہ السلام کے قصوں میں بھی مذکور ہے۔
سائرس (کورش )اور سمیرا مس کی یلغار اور پھر انہی کی تقلید میں سکندرِ اعظم کی مشہور مہم جوئی کا تو بڑا تفصیلی ذکر ملتا ہے۔ فردوسی اپنے معروف شاہ نامہ میں اس علاقہ کو تورانی اورایرانی بادشاہوں کے درمیان جنگ کا میدان بتاتا ہے۔
مکران جس کا گوادر ایک جزو لاینفک ہے ایران کے بادشاہ کائوس کے عہد میں ایرانی مقبوضات کا حصہ رہا۔ بیچ میں کچھ عرصہ کیلئے مکران افراسیاب کے ماتحت، عارضی طور پر تورانیوں کے تسلط میں آیا جنہیں خسرو نے پانچ کڑی جنگوں کے بعد واپس لے لیا اور وہ خودیہاں ایک سال آباد رہا۔
آج بھی تربت کی دو کارینریں کاؤسی اور خسروی موجود ہیں اور اس عہد کی یاد دلاتی ہیں ان نامی گرامی فاتحین کے بعد یہ علاقہ لہراسپ، گشتا سپ، بہمن، ہما ور داراب سے ہوتا ہوا سکندراعظم کی فوجوں کی زد میں رہا۔
325 قبل مسیح میں اس کا مکران آنا اور یہاں سے گزرنا تاریخ کے انمٹ نقوش کا حصہ ہے۔ زیا دہ تر مورخین کا اتفاق ہے کہ پورے ایشیا میں سکند رِ اعظم کو جن مشکلات سے گزرنا پڑا ان کا موازانہ اس علاقہ میں پیش آنے والی تکالیف سے نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بہت شدید نوعیت کی تھیں ۔ دنیا کا یہ عظیم فاتح اپنی بچی کھچی فوج کے ساتھ ہنگول دریا کے شمال میں ساحل کے ساتھ ساتھ مکران ساحل کے پہاڑی سلسلے کے پیچھے سے گزرکر ، پسنی اور کلمت کے درمیان ساحل پر پہنچا اور گوادر کے پاس سے گواتر اور بمپور کی طرف مڑگیا اور پھر چھوٹی کشتیوں کے سہارے دریائے سندھ کے دھانے سے آگے بڑھ گیا۔
سلیو کوس نکا ٹور خود مکران آیا اور دریائے سندھ عبور کرتے ہوئے اس کا سابقہ مگدھ کے راجا چند ر گپت سے پڑا ۔ اس کے مقابلے میں اسے شکست ہوئی اور وہ پسپائی پر مجبور ہو گیا اور ایک ذلت آمیز معاہدے کے تحت متعدد دیگر صوبوں کے ساتھ مکران بھی راجا چند ر گپت کو سونپ دیا۔
مکران اور گوادر اس کے بعد کئی صدیاں ، نظروں سے اوجھل رہے۔پانچویں صدی عیسوی میں یہ ایک بار پھر ہندوستانی مقبوضہ علاقے کے طور پر سامنے آیا۔
جب ہند کے حاکم شیر مہ نے اپنی بیٹی کی شادی ساسانی سلطنت کے چودہویں حکمران بہرام پور (404ء427-ء)سے کردی اور جہیز میں سند ھ اور مکران کے علاقے اس کو دے دیے۔ اگلی دو صدیاں یہ علاقہ ساسانیوں کے ماتحت رہاپھر مختصر سے وقت کیلئے سند ھ کی برہمن سلطنت کے زیر نگیں آگیا اور اس کے بعد سندھ اور مکران عربوں کی جہاں آرائی اور مہم جوئی کی زد میں آیا۔
ان کی آمد سے یہ علاقہ عرب فتوحات کا حصہ بن گیا محمد بن قاسم کے ہاتھوں جب سند ھ کی تسخیر مکمل ہو گئی تو لگتا ہے کہ مکران کو انتظامی طور پرسند ھ کے ساتھ مدغم کر دیا گیا تھا ۔ دسویں صدی عیسوی میں عیسیٰ بن مدان نامی ایک عرب کا ذکر ملتا ہے جو یہاں کا حاکم تھا اور کیچ میں رہائش پذیر تھا۔
نبی اکرم ﷺ کے وصال کے کچھ ہی عرصہ بعد خلفائے راشدینؓ کے عہد سے لے کر بنو امیہ کی حکومتوں کے زمانے تک کسی نہ کسی طرح یہ علاقہ عربوں کے زیر انتظام آتا رہا اور سرکشی ، خود مختاری اور شورشوں کی زد میں رہ کر مسلسل بے چینی کا شکار بھی ہوتا رہا۔
اس علاقہ اور اس کے مکینوں نے باہر کے تسلط کو زیادہ عرصہ ہضم نہیں کیا ۔ حریت کیشی اور آزاد روی ان کے خون میں رچی بسی ہے ۔ اپنی روایات اور ثقافت کو یہ ہمیشہ گلے سے لگا کر رکھتے ہیں۔
ماضی بعید میں مکران اور اس کے دل گوادر کی تاریخ کا سرسری جائزہ ہم نے کافی اختصار سے لیا ہے اب ماضی قریب میں بھی معمولی تانک جھانک ہی کرنا بہتر ہے کیونکہ اس کی تاریخ اتنی دلچسپ اور واقعات کا ایسا لامتناہی سلسلہ لیے ہوئے ہے کہ اگر ہم نے رہوار قلم کو لگام نہ دی تو اس کے حصا ر سے باہر نکلنا بہت مشکل ہو جائے گا ۔لہذا اس کی تفصیل فی الحال ادھوری چھوڑتے ہیں۔
بیرونی حملہ آوروں اور طالع آزمائوں نے اس علاقے پر کبھی طویل مدت کیلئے اور کبھی عارضی طور پر اپنی حاکمیت جتانے کی کوشش ہمیشہ جاری رکھی۔
ویلمی ، سلجوق ، غزنوی اور منگول سبھی نے اس علاقے کے حصول کی کوششیں کیں مگر پھر تقدیر اوریہاں کے مکینوں کے ہاتھوں پسپا ہونے پر مجبور ہوتے رہے۔
اس بات کا واضح ثبوت نہیں مل سکا کہ مکرا ن کبھی باضابطہ طور پر دہلی کے مغل بادشاہوں کے زیر اثران کی سلطنت کا حصہ رہا ہو یا مستقل ان کا مطیع ہو گیا ہو سولہویں صدی کے آغاز میں پرتگیزیوں نے بھی ہندوستان کی طرف مہم جوئی کی اور مکران کے ساحل کے ساتھ ساتھ متعدد مقاما ت پر قبضہ جمانے کی کوشش کی لیکن وہ زیادہ اند ر تک نہ جاسکے۔
گوادر اور پسنی میں ان سے چھینی گئی دو توپیں ان کی ناکامی کی شہادت دیتی ہیں ۔ جو وہاں 1901ء میں رکھی گئیں پرتگیزیوں نے پسنی اور گوادر کو جلا ڈالا تھا۔
بارہویں صدی تک مقامی مَلِک ان علاقوں کے مالک بن گئے تھے ۔ انیسویں صدی میں مکران عارضی طور پر انہی مَلِکوں میں سے ایک سیستان کے صفار ی سلطنت کا حصہ رہا پھر ملکوں سے یہ علاقہ بلیدیوں کے ہاتھ آگیا ۔ ان کے عروج کا زمانہ 1613ء سے1740ء تک کا ہے۔
بلیدیوں کے زوال کے بعد گچکی علاقے کے مختار و مالک بن گئے ۔ پھر خانز آف کلا ت اور مِیروں سمیت متعدد طاقتور قبیلوں کے درمیان چپقلش اور زور آزمائی کا سلسلہ جاری رہا ۔
پہلی افغان وار چھڑی تو برطانویوں کی نظر ادھر اٹھی۔ میجر لیچ نے حاجی عبدالبنی کو اس علاقے کا دورہ کرنے 1838-39ء میں روانہ کیا۔ میجر گولڈ سمڈ نے 1861ء 1862ء میں ہند یورپی ٹیلی گراف لائن بچھانے کیلئے اس علاقے کا سروے کیا اور اس کام کا ذمہ دار ٹھہرا 1869ء میں ایرانیوں نے بمپور کے حاکم ابراہیم خان کے تخت پشین پر قبضہ کرلیا۔
انگریز کی حکومت ہند نے خان آف کلات کے ایما پر فارسیوں کی پیش قدمی روک دی 25اکتوبر 1871سے24ستمبر 1872تک برطانوی ، ایرانی اور مقامی حکام اور سرداروں کے درمیان سخت اعصابی کشمکش جاری رہی سفارتی سرگرمیاں اور متحارب دھڑوں میں صلح اور ان کے علاقوں کی سرحدات کی نشاندہی اس اعصابی جنگ کا مرکزی نقطہ رہا۔
جو بالٓاخر کامیابی سے ہمکنار ہوا اور انجام کا ر فریقین نے کیپٹن لوویٹ کی تجویز کردہ سرحد کو تسلیم کرلیا ۔ اسی عرصہ میں مسقط کے حکمران بھی مکران اور گوادر کی بساط پرظاہر ہو گئے تھے ۔
آنے والے کئی برس مکران اندرونی تنازعات او ر متواتر گڑ بڑ کا شکار رہا۔ اس عرصہ میں انگریز حکام اور افسران تنازعات نبٹانے یا بڑھانے کیلئے لگاتار سرگرم رہے اور یوں ان کا اثر و نفوذ بڑھتا گیا۔
سررابرٹ سنڈیمن نے مہارت کے ساتھ بہت جلد مقامی سرداروں اور طاقتور قبیلوں میں گہرا نفوذ حاصل کر لیا اور اپنی تدابیر سے حکومت برطانیہ کو بہت فائدہ پہنچایا لارڈ کرزن بطور وائس ریگل 1903میں پسنی آئے اور مکران کا دورہ کیا ۔ برطانوی حکام نے اس ایریا میں اپنے پولیٹیکل ایجنٹ اور مکران نیوی کور کے کمانڈنٹ تعینا ت کیے۔
انگریزوں نے بہت ہوشیاری سے خان آف قلا ت کی حاکمیت کے نفاذ کی آڑ میں بڑے موثر انداز میں اپنا غلبہ مکمل کرلیا ۔ برطانوی اثر و نفوذ اور 1947ء میں برصغیر سے اس کے انخلا ء تک ایک طلسم ہو شربا ہے جو بطور داستان بھی ایک الگ تحریر کا متقاضی ہے۔
لہذا ہم تاریخ کے ان جھروکوں سے نکل کے ایک بار پھر آج کے گوادر کی طرف رخ کرتے ہیں جو ایک بار پھر ایک نئی اور روشن امکانا ت بھری تاریخ کا پیش آمدہ باب بننے جارہا ہے اور گہرے پانیوں کے کنارے ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی سے بلندیوں کو چھوتی عمارتوں اور تجارتی مرکز میں تبدیل ہونے لگا ہے۔
گوادر کی سٹرٹیجک اہمیت باضابطہ طور پر1954ء میں اس وقت ابھرکر سامنے آئی تھی جب امریکی جیالوجیکل سروے نے حکومت پاکستان کی درخواست پر، اسے گہرے پانی کی موزوں ترین بندرگاہ کے طور پر شنا خت کیا ۔ اس عرصہ میں پاکستان گوادر کے واپس حصول کیلئے خاموشی کے ساتھ کوششوں میں لگا ہوا تھا۔
کئی پاپڑ بیلنے کے بعد آخرکا ر اس دور کے وزیر اعظم فیروز خان نون کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ1958ء میں گوادر باضابطہ طور پر پاکستان کا حصہ بن گیا ۔ مسقط کے سلطان علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور بھارتی قیادت سے ان کے مراسم بہت اچھے تھے اس مرحلہ میں بھارت نے ان مراسم سے فائدہ اٹھانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر وزیراعظم پاکستان کی نو مسلم اہلیہ ، بیگم وقار النساء نون کے برطانیہ میں گہرے اثرات اور مراسم نے بھارت کی یہ کوشش ناکام بنا دی۔
گوادر کی پاکستان کو حوالگی بیگم وقار النساء کے ذکر اور کوشش کے اعتراف کے بغیر ہمیشہ ادھوری رہے گی اس خاتون کی پاکستان کیلئے اس خدمت کو کبھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔
یقیناً یہ افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کی اس جنوبی ساحلی پٹی ، بالخصوص گوادر ، پسنی ، اوڑماڑہ کے قیمتی اثاثے کی بے قدری کی گئی اور ایک طویل عرصہ تک اس کی اہمیت اور مفید پہلوئوں کو نظر انداز کیا گیا گوادر پہلے دن سے پاکستان کیلئے گیم چینجر تھا ۔ اس میں ملک کو معاشی طور پر بہت آگے لے جانے کے تمام تر لوازما ت اور مواقع موجود تھے ۔اور ہیں مگر اس سے فائدہ اٹھانے میں بہت تساہل برتا گیا اور غیر سنجیدگی سے کام کیا جاتا رہا ۔