اسلام آباد: (دنیا نیوز) سابق صدر آصف زرداری اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش، 9 ستمبر کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی آئندہ سماعت پر طلب جبکہ نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی 25 اگست تک موخر کر دی گئی۔
تفصیل کے مطابق اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم 9 ستمبر کوعائد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جبکہ نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی روک دی ہے۔
احتساب عدالت کے جج اصغر علی نے توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت کی۔ دوران سماعت آصف علی زرداری روسٹرم پر آئے، حاضری لگائی اور نشست پر بیٹھ گئے۔
سابق صدر کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیئے کہ احتساب عدالت میں داخل ہونے سے روکا گیا، 7 ناکوں سے گزر کر پہنچے، یہ ملٹری کورٹ ہے نہ ان کیمرہ ٹرائل، ان کے موکل بیمار ہیں، عدالت بھری ہوئی ہے اگر کورونا ہوگیا تو کون ذمہ دار ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ ریفرنس: آصف زرداری احتساب عدالت پیش، 9 ستمبر کو فرد جرم عائد ہوگی
جج احتساب عدالت نے ریمارکس دیئے کہ عدالت آتے ہوئے انہیں بھی مشکلات پیش آئیں چیک پوسٹ پر روکا گیا، 6 جگہوں پر تو ناکے لگائے ہوئے تھے، معاملے کو انتظامیہ کے ساتھ اٹھائیں گے۔ دوران سماعت ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل اور ملزمان کے وکلا کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔
عدالت نے ملزمان کو حاضری یقینی بنانے کے لیے 20، 20 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم بھی دیا۔ نواز شریف کے وکیل بیرسٹر جہانگیر جدون نے بتایا کہ ان کے موکل کو اشہتاری قرار دینے کا فیصلہ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، فیصلہ آنے تک کارروائی روکی جائے۔ عدالت نے وکیل کی استدعا پر نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی روکتے ہوئے قرار دیا کہ فیصلہ 25 ستمبر کو کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پورا خاندان بھی گرفتار کرلیں، 18 ویں ترمیم پر آنچ نہیں آنے دیں گے: بلاول بھٹو
بعد ازاں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جعلی اور کٹھ پتلی حکومت نہیں چل سکتی، آپ کے دباؤ کی وجہ سے ہم اپنا مؤقف نہیں بدلیں گے، پورا خاندان بھی گرفتار کرلیں، 18 ویں ترمیم پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا آج پھر سے اسلام آباد کو یرغمال بنایا گیا، وکلا کو بھی عدالت آنے میں مشکلات پیش آئیں، فاروق نائیک کو بھی عدالت جانے نہیں دیا گیا، آج کارکنوں اور رہنماؤں کو عدالت جانے سے روکا گیا، کیا آزاد ریاست میں ایسے ہوتا ہے ؟ عوام اور وکلا سے کیا چھپانے کی کوشش کی گئی ؟ کیا آپ آصف زرداری سے اتنا ڈرتے ہیں؟۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا میرے خاندان کے ساتھ نفسیاتی کھیل کھیلا جا رہا ہے، جمہوری، انسانی حقوق پر ہم اپنا بیانیہ نہیں بدلیں گے، آج سپریم کورٹ کے وکلا سے بدتمیزی کی گئی، آج ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے کل کسی اور کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے، نیب دباؤ ڈال کر اپنی مرضی سے کیس چلانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی ضمانت اور بیرون ملک روانگی، عدالت عالیہ نے سوالات اٹھا دیئے
ادھر توشہ خانہ ریفرنس میں نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کے خلاف درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے نام ای سی ایل سے نکالا، عدالت کو آگاہ کیا نہ اجازت لی گئی۔
تفصیل کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ریفرنس میں مفرور قرار دینے کے خلاف نواز شریف کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے کہا کہ ریکارڈ پیش کیا جائے کہ سابق وزیراعظم ضمانت پر ہیں یا مفرور؟ بظاہر اس عدالت کے فیصلے کی حد تک ملزم اشتہاری ہو چکا ہے۔ عدالت نے حکمنامے میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم نہیں دیا تھا۔
عدالت نے حکمنامے میں کہا کہ بتایا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالا تھا۔ وفاقی حکومت اور نہ ہی نیب نے عدالت کو نواز شریف کی سزا معطلی کے بعد کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ نواز شریف نے بھی بیرون ملک جانے سے پہلے عدالت سے اجازت نہیں لی۔ نواز شریف کے وکلا درخواست کے قابل سماعت ہونے پر بھی عدالت کو مطمئن نہ کر سکے۔
عدالت نے کہا کہ پنجاب حکومت سے ضمانت میں توسیع نہ ہونے کے بعد نواز شریف کو سرنڈر کرنا تھا۔ نواز شریف پنجاب حکومت کی طرف سے ضمانت میں توسیع نہ کرنے کا حکم چیلنج کر سکتے تھے اور ریلیف کے لیے صرف کلین ہینڈز کے ساتھ عدالت آ سکتے ہیں۔
دوسری جانب سماعت کے موقع پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم نے پنجاب حکومت کو کہا تھا کہ نواز شریف کی ضمانت میں توسیع پر فیصلہ کریں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کی ضمانت غیر موثر ہو چکی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر ضمانت منسوخ ہے تو اس پر نواز شریف کا سٹیٹس کیا ہے؟ بظاہر اس عدالت کے فیصلے کی حد تک ملزم اشتہاری ہو چکا ہے۔
نواز شریف کے وکیل جہانگیر جدون نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے ضمانت میں توسیع دی تھی، ابھی آرڈر کاپی موجود نہیں ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نواز شریف کی ضمانت ہے یا نہیں؟ پہلے ہمیں یہ کلئیر کریں۔ کیس پر مزید دلائل کے لیے نواز شریف کے وکلا نے مہلت مانگ لی جبکہ عدالت نے ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت 20 اگست تک ملتوی کر دی۔