کراچی: (دنیا نیوز) عروسی ملبوسات تیار کرنے والے کاریگر کئی ماہ بے روز گار رہنے کے بعد کام پر لوٹنا شروع ہو گئے لیکن کام میں پہلے جیسی آمدنی نہ ہونے کا شکوہ ہے۔ دوسری جانب سرمایہ داروں اور بدلتے دور کے تقاضوں نے پہلے ہی کاریگر کی اہمیت کم کر رکھی ہے۔
کارچوبوں پر زردوزی کا کام کرتے کاریگر اپنی زندگی کے کئی سال کامدانی بناتے گزار چکے ہیں۔ عروسی ملبوسات کے پیچھے کئی کاریگروں کی کئی کئی روز کی محنت ہوتی ہے، سب سے پہلے پیپر ٹریسنگ، سوزن اور چھپائی کی جاتی ہے جس کے بعد کڑھائی اور زردوزی، کاریگر نفاست سے گل کاری کرتے ہیں، کورا، دبکہ اور گوٹا لگاتے ہیں، سلمیٰ ستارے اور موتی ٹانکتے ہیں۔
کورونا کے دوران یہ کاریگر کئی ماہ تک بے روز گار رہے، کچھ نے پیشہ ہی بدل ڈالا۔ کورونا سے پہلے اس کارخانے میں 18 اور اب محض 6 کاریگر لوٹے ہیں۔ شادیوں کا سیزن شروع تو ہوگیا ہے۔ شادی ہال بھی کھل گئے ہیں لیکن ان کا کام اب بھی سست رفتاری سے چل رہا ہے۔ کاریگروں کا کہنا ہے کہ اس شعبے میں محنت کشوں کا استحصال تو پہلے ہی سے جاری ہے ، ڈیزائنرز ان سے کام کروا کر دس گنا زیادہ قیمت میں بیچتے ہیں مگر انہیں ہفتے کے وہی اوسطاً سات ہزار روپے ہی میسر آپاتے تھے۔ اوپر سے کورونا لاک ڈاون کے بعد تو کام بہت ہی کم ہو کر رہ گیا ہے اورآمدنی کم ہو کر دو ڈھائی ہزار رہ گئی ہے۔
کاریگروں کا کہنا ہے اس کام کی پہلے جیسی وقعت نہیں رہی نہ ہی کام میں نفاست کی طلب ہے، ہر کوئی کم دام کی تلاش اور جلدی میں ہے۔ کاریگروں کو امید ہے کہ کورونا کا مکمل خاتمہ ہو جائے اور زندگی پہلے کی طرح معمول پر آ جائے تو انکی آمدنی میں بہتری آئے گی۔