لاہور: (دنیا نیوز) سموگ کے عفریت نے پھر سر اٹھا لیا۔ ایک ماہ کے دوران 8 بار لاہور کی فضاء آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست رہی، سب سے زیادہ ایئر کوالٹی انڈیکس 367 ریکارڈ کیا گیا۔ طبی ماہرین نے شہر کی فضاء کو غیر صحت بخش قرار دے دیا۔
سب سے زیادہ ایئر کوالٹی انڈیکس 367 تک ریکارڈ کیا گیا۔ سموگ کے مسئلے نے پاکستان میں پہلی بار 2015ء میں سر اٹھایا۔ پنجاب حکومت دعوؤں کے برعکس اس پر قابو پانے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
ہر سال اکتوبر اور نومبر میں سموگ کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔ کاربن مونو آکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ جیسے زہریلے مادے گلے میں خراش، ناک اور آنکھوں میں چبھن کی وجہ بنتے ہیں جبکہ پھیپھڑوں اور دل کے نظام پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
عوام کا کہنا ہے کہ صبح گھر سے نکلتے ہیں تو آنکھوں میں جلن محسوس ہوتی ہے، سموگ کے باعث آؤٹ ڈور سرگرمیاں بند کر دی ہیں، ماسک کے استعمال سے سموگ کا اثر کم ہو جاتا ہے۔
ڈین آف انسٹی ٹیوشن پبلک ہیلتھ پروفیسر ڈاکٹر زرفشاں طاہر کا کہنا ہے کہ اس سال سموگ کے اثرات بہت زیادہ ہیں، جس سے جلدی امراض بھی ہوسکتے ہیں، سموگ حاملہ خواتین کے لئے بہت خطرناک ہے۔
سینے کے امراض کے ماہر ڈاکٹر ایوب مرزا کا کہنا ہے کہ سموگ سے سینے کی انفیکشن، فالج، پھیپھڑوں کا کینسر، نمونیہ اور سانس کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شہری بغیر ضرورت گھروں سے نہ نکلیں، گھر سے باہر نکلتے وقت چہرے کو گیلے کپڑے یا ماسک سے ڈھانپ لیں۔