گلگت: (دنیا نیوز) گلگت بلتستان کے چیف الیکشن کمشنر راجہ شہباز خان نے سیاسی رہنماؤں کو مشورہ دیا ہے کہ علاقے کا ماحول خراب کرنے سے بہتر ہے کہ وہ واپس چلے جائیں۔
گلگت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آر اوز کو ہدایت کی ہے کہ 24 گھنٹے دفاتر کو کھلا رکھا جائے۔ اس کے علاوہ آل پارٹیز کانفرنس بھی طلب کی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما کل آکر اپنے اپنے مشورے دیں۔
انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ ؎الیکشن رولز کی خلاف ورزی پر پیپلز پارٹی کو 41، تحریک انصاف کو 30، جمعیت علمائے اسلام کو 3، مسلم لیگ (ق) کو 6، اسلامی تحریک کو 5 جبکہ 18 آزاد امیدواروں کو بھی نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ علاقے کا ماحول خراب کرنے سے بہتر ہے کہ سیاسی رہنما واپس چلے جائیں۔ کوئی بھی امیدوار مذہبی یا فرقہ وارانہ کارڈ استعمال کرے گا تو وہ نااہل ہوگا۔
راجہ شہباز خان کا کہنا تھا کہ دھاندلی کے الزمات ٹرمپ بھی لگاتے ہیں۔ وزیراعظم ایونٹ میں شرکت کے لئے گلگت بلتستان آئے تھے۔ وزیراعظم کے دورے کے دوران الیکشن ایکٹ کی کسی قسم کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ آر او کے پاس پاور نہیں ہے۔ دیامر کے آر او نے گنڈا پور کے خلاف غلط سرکلر جاری کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے بھر میں اب تک ٹوٹل 1234 پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن میں سے 415 انتہائی حساس ہیں۔ ضرورت پڑنے پر پولنگ سٹیشن کی تعداد بڑھائی بھی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان عدالت نے پارلیمنٹیرینز کو سیاسی سرگرمیوں سے روک دیا
ادھر گلگت بلتستان عدالت نے پارلیمنٹیرینز کو سیاسی سرگرمیوں سے روک دیا۔ عدالت نے وزرا، ارکان پارلیمنٹ، سینیٹرز کو واپس بھیجنے کا حکم دے دیا ہے۔
چیف جسٹس چیف کورٹ کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی رٹ پٹیشن پر فیصلہ سنایا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ وزراء صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی، ممبران و سینیٹرز کو واپس بھیج دیا جائے، آئی جی پولیس تمام اضلاع کے حکام کو آگاہ کر دیں، مذکورہ بالا ممبران قومی اسمبلی، سینیٹرز، ووزراء کو سیاسی سرگرمیوں سے روکا جائے۔
یاد رہے گلگت بلتستان (جی بی) کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات 15 نومبر کو ہوں گے۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کی 24 جنرل نشستوں پر انتخابات جو اس سے قبل 18 اگست کو ہونے تھے تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے ملتوی کر دیئے گئے تھے۔ گزشتہ اسمبلی کی 5 سالہ میعاد 24 جون کو ختم ہوگئی تھی جس سے وہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پانچ سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوا تھا۔