کوئٹہ: (دنیا نیوز) بلوچستان کا تعلیمی شعبہ تباہی کے دہانے پر جا پہنچا، بجٹ میں سب سے بڑا حصہ ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں رکھا گیا ہے اس کے باوجود آئے روز ہونیوالی ہڑتالوں اور بھوت اساتذہ کے بعد کورونا کے مسئلے نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔
تعلیم کے میدان میں بلوچستان کا دوسرے صوبوں سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ جان کر انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ بلوچستان تعلیم، صحت اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہے جبکہ رہی سہی کسر کورونا نے پوری کر دی ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران صوبہ تعلیمی زبوں حالی کا شکار رہا۔ 21-2020 کے بجٹ میں تعلیم کی مد میں 71 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی۔
صوبے میں اساتذہ اور محکمے کے کلیریکل سٹاف کی تعداد انتہائی زیادہ ہے جس کی وجہ سے بجٹ میں سب سے بڑا حصہ ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں رکھا گیا جن کی آئے روز احتجاج کے باعث بھی تعلیم کا شعبہ تباہی کے دہانے پر جا پہنچا۔
وزیر تعلیم سردار یار محمد رند کا کہنا ہے کورونا، اساتذہ کی ہڑتالوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باوجود محکمے کی 14 ماہ کے دوران کارکردگی سے انتہائی مطمئن ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم الف اعلان کی سروے رپورٹ کے مطابق صوبے میں کل سکولوں کی تعداد 12347 ہے جس میں سے صرف 6 فیصد ہائی سکول ہیں۔ 216 سکول اِس وقت غیر فعال ہیں، باقی سکولوں میں سے 37 فیصد سکول ایک کمرہ پر مشتمل ہیں اور 14فیصد اساتذہ بغیر سکول جائے ہی تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔