حکومت غریب اور تنخواہ دار طبقے پر بوجھ نہیں بڑھائے گی، وزیر خزانہ

Published On 10 June,2021 03:13 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ حکومت غریب اور تنخواہ دار طبقے پر بوجھ نہیں بڑھائے گی، برآمدات اور پیداوارمیں اضافہ کیلئے جامع منصوبہ بندی سے آگے بڑھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے کوویڈ 19 کے حوالہ سے دانش مندانہ پالیسیاں اپنائیں اور اس کے اثرات کو کم یا زائل کیا۔ میگا اقتصادی پیکج کے تحت خصوصی مراعات سے بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 9 فیصد اور زراعت میں 2.77 فیصد کی بڑھوتری ہوئی۔ گندم، چاول، مکئی اور کماد کی بمپر پیداوار حاصل ہوئی۔ مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں ترسیلات زر کی مد میں 26 ارب ڈالر حاصل ہوئے اور سال کے اختتام پر یہ 29 ارب ڈالر ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ترسیلات زر میں اضافہ وزیراعظم عمران خان پر بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے اعتماد کا مظہر ہے۔ آئندہ مالی سال کیلئے محصولات کا ہدف 5800 ارب روپے رکھا جا رہا ہے۔ گردشی قرضہ کے بتدریج خاتمہ کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

جمعرات کو یہاں قومی اقتصادی سروے 2020-21ء کے اجرا کے موقع پر وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار، مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد، ڈاکٹر ثانیہ نشتر اور معاون خصوصی ریونیو ڈاکٹر وقار مسعود کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ مالی سال کا جب آغاز ہوا تو کوویڈ 19 کی وبا کی لہر پھیلی ہوئی تھی۔ حکومت نے کوویڈ 19 کے حوالہ سے دانش مندانہ پالیسیاں اپنائی اور کورونا وائرس کے اثرات کو کم یا زائل کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سمارٹ لاک ڈاؤن کے حوالہ سے فیصلہ دانشمندانہ ثابت ہوا۔ حکومت نے مالیاتی اور زرعی بنیادوں پر بھی فیصلے کئے۔ وزیراعظم نے اپنی کوششوں سے ہاؤسنگ اور تعمیرات کے شعبہ کیلئے خصوصی مراعاتی پیکج دیا اور اس ضمن میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے خصوصی مراعات حاصل کی گئیں۔ شہریوں کو ویکسین کی فراہمی کا عمل شروع کیا گیا۔ این سی او سی کا قیام ایک بڑا اقدام تھا جس کی موثر نگرانی میں کوویڈ کی لہروں پر قابو پانے میں مدد ملی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کوویڈ کی پہلی لہر اور لاک ڈاؤن سے کام کرنے والے 5 کروڑ 60 لاکھ افراد کی تعداد گھٹ کر 3 کروڑ 50 لاکھ کی سطح پر آ گئی۔

شوکت ترین نے کہا کہ یعنی دو کروڑ افراد جن میں سے بیشتر دیہاڑی دار اور ذاتی روزگار والی آبادی شامل تھی، بے روزگار ہوئی اور انہیں کوئی کام نہیں مل رہا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے اس ضمن میں دانشمندانہ پالیسیاں اپنائیں، ان پالیسیوں کے نتیجہ میں گزشتہ سال اکتوبر میں کام کرنے والے افراد کی تعداد دوبارہ بڑھ کر 5 کروڑ 30 لاکھ ہو گئی ہے۔ معیشت بحال اور بڑھوتری کی جانب گامزن ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ سال کے آغاز میں بڑھوتری کا اندازہ 2.8 فیصد لگایا گیا تھا۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک اس سے کم بڑھوتری کے اندازے لگا رہے تھے تاہم حکومت نے انسانی زندگیوں کے تحفظ اور کاروبار کے حوالہ سے جو فیصلے کئے اس سے بہت بہتر نتائج سامنے آئے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے میگااقتصادی پیکج کے تحت مینوفیکچرنگ، ٹیکسٹائل، تعمیرات اورزراعت کیلئے خصوصی مراعات کااعلان کیا، ان اقدامات سے بڑی صنعتوں کی پیداوارمیں 9 فیصد اورزراعت میں 2.77فیصدکی بڑھوتری ہوئی، کاٹن کی فصل خراب ہونے سے ہمیں زرعی پیداوارمیں کمی کاخدشہ تھا تاہم گندم، چاول، مکئی اورکماد کی بمپرپیداوارحاصل ہوئی ہے، ترسیلات زرکے شعبہ میں نمایاں بہتری آئی ہے، مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں ترسیلات زرکی مدمیں 26 ارب ڈالرحاصل ہوئے ہیں اورسال کے اختتام پریہ 29 ارب ڈالرہوجائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ترسیلات زر میں یہ اضافہ وزیراعظم عمران خان پر بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے اعتماد کا مظہر ہے۔ موجودہ حالات میں ترسیلات زر میں یہ اضافہ ہمارے لئے رحمت سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حسابات جاریہ کے کھاتے کئی ماہ فاضل میں چل رہے ہیں۔ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں ایک ارب ڈالر آئے ہیں اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر جو 2018ء میں 8 ارب ڈالر کی سطح پر تھے، اب 16 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں۔ فیٹف میں ہماری کارگردگی اچھی رہی ہے اور امید ہے کہ پاکستان کے حوالہ سے جائزہ میں ہمیں ریلیف ملے گا۔ فیٹف کمیٹی نے جو فیڈ بیک دیا ہے وہ حوصلہ افزا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ایمازون نے پاکستان کو سیلرز لسٹ میں شامل کر دیا ہے۔

شوکت ترین نے کہا کہ ایف بی آر نے 11 ماہ میں 4.2 ٹریلین روپے کی محصولات اکھٹاکیں، ایف بی آر کی محصولات میں اضافہ کی شرح 18 فیصدکے قریب رہی، مارچ کے بعد سے لیکراب تک ایف بی آر کی وصولیوں کی شرح 50 سے 60 فیصدزیادہ ہے، جاری مالی سال کیلئے ریونیوکا ہدف4.7 ٹریلین روپے تھا جو حاصل کرلیا جائیگا، آئندہ مالی سال کیلئے محصولات کاہدف 5800 ارب روپے رکھا جارہاہے۔ انہوں نے کہاکہ پرائمری بیلنس کوسرپلس کردیا گیاہے، گزشتہ 12 برسوں میں پہلی بارہماراپرائمری بیلنس سرپلس ہواہے، وزیرخزانہ نے کہاکہ یہ ایک حقیقیت ہے کہ بین الاقوامی منڈیوں میں تیل، چینی، خوردنی تیل اوردیگراشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہواہے، پاکستان اب خوراک کی زیادہ اشیا درآمد کررہاہے،

ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ خوراک کی اشیا کی درآمدات میں کمی اوربرآمدات میں اضافہ کیا جائے۔عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں اضافہ سے ہم نہیں بچ سکتے تاہم ہماری کوشش ہے کہ عام آدمی پراس کے اثرات کوکم سے کم کیاجائے، جاری مالی سال میں عالمی منڈی میں چینی کی قیمت میں 58 فیصداضافہ ہوا، حکومت نے صرف 19سے لیکر12 فیصدتک اضافہ کیا اور38 فیصد بوجھ خودبرداشت کیا، پام آئل کی بین الاقوامی قیمت میں 119 فیصداضافہ ہوا، پاکستان میں 22 فیصداضافہ صارفین کومنتقل ہواجبکہ باقی بوجھ حکومت نے برداشت کیا اسی طرح خام آئل اوردیگراشیا کی قیمتوں میں زیادہ تربوجھ حکومت نے خودبرداشت کیا اورصارفین کوقیمتوں میں اضافہ کے اثرات سے محفوظ رکھا گیا۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ مہنگائی پرقابوپانا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، اس مقصد کیلئے پیداوارمیں اضافہ کے ساتھ ساتھ انتظامی اقدامات پربھی توجہ دی جارہی ہے،

ان کا کہنا تھا کہ ریٹیل اورہول سیل کے درمیان منافع کے مارجن کوکم کرنے کیلئے وئیرہاوسز اورکولڈسٹوریجز بنائے جارہے ہیں، پہلی مرتبہ گھی، دالوں، گندم، چینی اوردیگراشیا کے سٹریٹجک ذخائرقائم کئے جارہے ہیں تاکہ مستقبل میں کسی قسم کی ناجائرمنافع خوری نہ ہو۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ تیزی سے ترقی کررہی ہے، ہماری سٹاک مارکیٹ ایشیا کی پہلی اوردنیا کی چوتھی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی سٹاک مارکیٹ بن گئی ہے۔ قرضوں کی صورتحال کاجائزہ لیتے ہوئے وزیرخزانہ نے بتایا کہ حکومت کے اولین دنوں میں ہمارامالیاتی خسارہ بہت بڑھ گیاتھا، حسابات جاریہ کے کھاتوں میں 20 ارب ڈالرکاخسارہ تھا، اسلئے شرح سود اورایکسچینج ریٹ بڑھانا پڑا، اس کی وجہ سے قرضوں کی مد میں پہلے سال اضافہ ہواتاہم اب اس میں کمی آرہی ہے،

انہوں نے کہا کہ اس سال مارچ کے آخر تک مجموعی قرضہ 38ٹریلین روپے تھا، جس میں 25 ٹریلین روپے کا قرضہ مقامی اورساڑھے 12 ٹریلین روپے کاغیرملکی قرضہ شامل ہے، جاری مالی سال میں قرضوں میں صرف 1.7 ٹریلین کا اضافہ ہواہے، جو پیوستہ سال کے مقابلہ میں کم ہے، سال 2019 میں قرضوں میں 3.7 ٹریلین کااضافہ ہواتھا، رواں سال بیرونی قرضہ گزشتہ سال کے مقابلہ میں 700 ارب روپے کم ہے۔جون 2020 میں غیرملکی قرضہ 13.1 ٹریلین روپے تھا جو اب 12.5 ٹریلین کی سطح پرہے۔پاکستان نے عالمی بانڈ مارکیٹ میں کامیابی سے قدم رکھے ہیں اور2.5 ارب ڈالرکے بانڈز جاری ہوئے، پاکستان کی صنعت نے ترقی کی ہے، موبائل فون کے استعمال کاحجم 182 ملین ہوگیاہے، براڈبینڈصارفین کی تعداد 100 ملین سے تجاوزکرگئی ہے اوراس شعبہ میں 48 فیصدبڑھوتری ہوئی۔ انہوں نے کہاکہ احساس سماجی تحفظ کابڑا پروگرام ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ عالمی بینک نے احساس پروگرام کودنیاکا سماجی تحفظ کابہترین اوربڑاپروگرام قراردیاہے، اس پروگرام کے تحت 15 ملین خاندانوں کو نقدمعاونت فراہم کی گئی، وزیراعظم نے کامیاب جوان پروگرام کاآغازکیاجس سے 8 سے لیکر9 ہزارجوان مستفیدہورہے ہیں، 10 بلین ٹری سونامی پروگرام پربھی کامیابی سے عمل درآمد جاری ہے۔ موڈیز، فچ اورسٹینڈرڈاینڈپورز جیسے بین الاقوامی اداروں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہترکی ہے۔پاکستان کے استحکام کا پروگرام بہترہواہے، اب ہمیں بڑھوتری کی طرف جانا ہے، وزیراعظم صاحب کوبھی ہم نے بتایاہے کہ 6سے لیکر7فیصد کی بڑھوتری کے بغیرہم اپنے جوانوں کوروزگارفراہم نہین کرسکتے جوآبادی کا60 فیصدہے، ہمیں سالانہ روزگارکے 20لاکھ مواقع فراہم کرنا ہے، اس مقصد کیلئے حکومت وقتاً فوقتاً اقدامات کرے گی، ہم نے غریب کاخیال رکھناہے کیونکہ پہلے ٹریکل ڈاون کاخواب دکھایاگیاتھا، ٹریکل ڈاون اس وقت کامیاب ہوتاہے جب ترقی اوربڑھوتری پائیدارہوں، پاکستان میں 60کی دہائی کے بعد ایسا دورنہیں آیا جب بڑھوتری میں تسلسل ہوں، حکومت بجٹ میں اس پرتوجہ دے رہی ہے،

ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ 40لاکھ سے لیکر60لاکھ گھرانوں کی زندگیوں میں آسانیاں لائی جائے، اس مقصد کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں، ہمارا طریقہ کارنیچھے سے اوپر کی طرف ترقی پرمبنی ہوگا۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ یہ بات خوش آئند ہے کہ بڑی صنعتوں کی پیداوارکی بڑھوتری کی شرح 9 فیصد ہے تاہم ایس ایم ایز پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے، ایس ایم ایزکو ایک لاکھ 80 ہزارقرضے دئیے گئے ہیں جو بہت کم ہے، 75فیصد قرضے کارپوریٹ سیکٹرلے رہاہے، ایس ایم ایز کیلئے قرضوں کی شرح 6فیصد ہے جیسے بڑھایا جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ برآمدات میں اضافہ ہماری ترجیح ہے، برآمدات میں اضافہ کیلئے متنوع اوراختراعی طریقے اختیارکئے جائیں گے، وزارت تجارت کی تجاویز پرمختلف شعبوں کیلئے مراعات دئیے جائیں گے۔حکومت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات میں اضافہ پربھرپورتوجہ دے رہی ہے، اس شعبہ میں برآمدات میں اضافہ کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ غذائی خودکفالت اوربرآمدات ہماری ترجیح ہے،

انہوں نے کہا ہاؤسنگ کے شعبہ میں بہت استعداد موجود ہے جس سے بھرپورطریقے سے استفادہ کیاجائیگا۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ بجلی کے شعبہ میں بہتری لائی جارہی ہے، بجلی ایک بڑا بلیک ہول ہے، ہمیں کیپسٹی ادائیگیاں کرنا پڑرہی ہے، آئی ایم ایف نے ٹیرف میں اضافہ کابوجھ ڈالاتاہم وزیراعظم نے انکارکیا، ہماری کوشش ہے کہ گردشی قرضہ میں بتدریج کمی آئے، اس وقت ادائیگیوں کی وجہ سے گردشی قرضہ آدھا رہ گیاہے، ہماری کوشش ہوگی کہ اس کوزیروکردیا جائے،۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ سی پیک کے حوالہ سے بنیادی ڈھانچہ قائم ہوگیاہے، خصوصی اقتصادی زونز بن چکے ہیں،

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ان زونز میں سرمایہ کاری لانا ہے، چین سالانہ 10 ملین ملازمیتیں آوٹ سورس کرتا ہے، اس میں پاکستان کیلئے مواقع ملنے کی کوشش کی جائیگی، چین سے اس حوالہ سے تعاون مانگیں گے، ایم ایل ون پربھی پیش رفت ہوگی۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ حکومت ایک سرکاری سماجی تحفظ کا نیٹ ورک دینا چاہتی ہے، احساس پروگرام پاکستان میں سماجی تحفظ کانیٹ ورک ہوگا۔ سرکاری کاروباری اداروں کاحوالہ دیتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہاکہ ان اداروں پربہت پیسے ضائع ہورہے ہیں، ماضی میں بھی حکومتوں نے ان کی نجکاری کے اعلانات کئے تاہم ان پرعمل نہیں ہوا، صرف چندبینکوں کی نجکاری ہوئی، حکومت نے نجکاری کمیشن میں ماہرین کا بورڈ بنانے کافیصلہ کیاہے، شروع میں 15 اداروں کوان کے حوالہ کیا جائیگا، اورانہیں نجکاری کاہدف دیا جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ مالیاتی شعبہ کی بہتری ہماری ترجیح ہے۔
 

Advertisement