لاہور: (دنیا نیوز) 14 اگست کے روز گریٹر اقبال پارک میں مختلف خواتین کے ساتھ دست درازی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ دنیا نیوز کو ان واقعات کی ویڈیوز موصول ہو گئی ہیں۔
ان ویڈیو میں سینکڑوں افراد دو خواتین کو ہراساں کرتے اور دست درازی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ خواتین کو بچانے کے لئے کچھ نواجوں کہتے رہے کہ پولیس آگئی ہے بھاگو۔
پولیس اور سیکیورٹی کی موجودگی نہ ہونے پر ایک خاتون نے چھڑی سے نوجوانوں کو مارا اور اپنی جان بچائی۔
مختلف خواتین کو ہراساں کرنے کی ویڈیو نے سیکیورٹی کا پول کھول دیا ہے۔ اس سے قبل بھی عائشہ اکرم اور دیگر خواتین کی 14 اگست والے دن ہراساں اور دست درازی کی ویڈیوز سامنے آئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: مینار پاکستان ہراسگی واقعہ، خاتون نے دکھ بھری داستان دنیا کو سنا دی
خیال رہے کہ مینار پاکستان پر خاتون کو سینکڑوں افراد کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ایک انٹرویو کے دوران سوشل میڈیا سے شہرت پانے والی عائشہ اکرم کا کہنا تھا کہ میں نے آج تک کوئی فحش ویڈیو نہیں بنائی، فحش کپڑے نہیں پہنے، واقعے والے روز میں نے مکمل کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے میرا سب کچھ اُتار دیا گیا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے جنگلے اور تاروں والی جگہ پر سکیورٹی گارڈ نے رکھا تھا تاہم شہریوں کے بڑے ہجو م نے تاریں اور جنگلے توڑ دیئے اور اندر گھس گئے، اس دوران میرے پاس ایک ایسی آپشن بھی آئی کہ مینار پاکستان میں موجود پانی والے تالاب میں کود جاؤں، میری ٹیم نے بھی کہا تھا کہ آپ بچ جائیں گی، میں اس لیے نہیں کودی کیونکہ وہاں پانی بہت گہرا تھا۔
خاتون کا مزید کہنا تھا کہ میں نے اور میری ٹیم نے 15 پر پولیس کو کال بھی کی، پولیس کو 2 بار کال کی گئی تھی، تاہم مجھے کوئی ریسپانس نہیں ملا، میں ساڑھے 6 بجے سے لیکر 9 بجے تک ٹارچر ہوتی رہی، لوگ میرے بالوں کو کھینچتے تھے اور لوگ کہتے تھے اُٹھو ناٹک مت کرو۔
عائشہ اکرم کا کہنا تھا کہ واقعہ میں ملوث لوگوں کی مجھے شکلیں یاد ہیں، میں پہچان سکتی ہوں، وہاں پر 3 سے 4 ہزار لوگ موجود تھے، ایسے لگا ساری دنیا میرے پاس آ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک عورت پاکستان اور شہر میں محفوظ نہیں ہے تو وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں محفوظ نہیں ہے، مانتی ہوں کہ میں وہاں گئی ہوں، میرے دل چاہ رہا تھا کہ میں وہاں جاؤں کیونکہ میں یوٹیوبر ہوں، میں کام کے لیے گئی تھی لیکن کسی کا حق نہیں تھا مجھے مکمل طور پر برہنہ کرے۔ جب ایک عورت کو سر عام برہنہ کیا جاتا ہے تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا۔ کیا پاکستان کی بیٹی ہونے کی یہ سزا ہے، میں وہاں فحاشی والے کپڑے نہیں پہن کر گئی تھی، میں نے آج تک کوئی فحاش ویڈیو نہیں بنائی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں دنیا کے سامنے اگر بول رہی ہوں تو اپنے لیے نہیں بول رہی، میرے ساتھ جو ہونا تھا ہو گیا، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد خان اور وزیراعظم عمران خان سے اپیل ہے کہ کچھ ایسا کیا جائے چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے ایسا واقعات نہ ہوں، میرا مطالبہ ہے اقبال پارک کو 14 اگست کو بند کیا جائے یا کچھ ایسا ہو کہ فیملی کے بغیر انٹری بالکل نہ ہو، آج اگر میرے ساتھ ہوا ہے تو کل کسی اور کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
عائشہ اکرم کا کہنا تھا کہ مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا لوگ مجھ پر تشدد کیوں کر رہے تھے میرے ساتھ کھیل رہے تھے، میرے جسم پر ایسا کوئی نشان نہیں ہے جہاں پر کوئی نشان نہ ہو لیکن میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا، میں نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا لوگ جانتے بھی نہیں تھے جو لوگ مجھے بچا رہے تھے وہی لوگ مجھے اچھال رہے تھے، ایک کپڑے اُتارتا تھا تو دوسرا کھینچنے کی کوشش کرتا تھا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب میں ہمت ہار گئی تھی کیونکہ میرا سانس بہت تنگ ہو رہا تھا تو اس وقت ایک بچہ آیا اس نے میرے منہ پر پانی ڈالنے کی کوشش کی لیکن میرے منہ میں پانی نہیں گیا، اسی دوران بچہ زور زور سے چیخ کر سب کو کہہ رہا تھا کہ تم لوگ پاگل ہو۔ یہ لڑکی بہت ختم ہو گئی ہے۔