کوئٹہ: (دنیا نیوز)بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرار داد پیش کر دی گئی۔ اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر بحث مکمل ہو گئی ہے، عدم اعتماد پر رائے شماری 25 اکتوبر کو ہو گی۔
رکن اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران نے وزیراعلیٰ کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ قرارداد کی 33 ارکان نے حمایت کی، اراکین نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر حمایت کا اعلان کیا۔
اس موقع پر عبدالرحمان کھیتران کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کی خراب حکمرانی کے باعث مایوسی، بدامنی، بیروزگاری، اداروں کی کارکردگی متاثرہوئی ہے،وزیراعلی خود کو عقل کُل سمجھ کراہم معاملات کو مشاورت کیے بغیر چلارہے ہیں۔
عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ اہم معاملات کو مشاورت کے بغیر چلانے سے صوبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایاگیا، وزیراعلیٰ جام کمال خان اپنے طور پر صوبے کے معاملات چلارہے ہیں، مطالبہ کرتے ہیں کہ خراب کارکردگی پر وزیراعلیٰ کوعہدے سے ہٹایا جائے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اپوزیشن لیڈر اسمبلی کے پانچ اراکین لاپتہ ہیں، انہیں گرفتار کیاگیاہے۔ جو ایم پی ایز لاپتہ ہیں انہیں ایوان میں پیش کیاجائے۔ اگر اراکین کو پیش نہیں کیا تو احتجاج کریں گے گھروں نہیں جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ارکان کو غائب کرنے کی باتیں قابل مذمت ہیں: ترجمان بلوچستان حکومت
بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکومتی ناراض اراکین بشریٰ رند، ماہ جبین شیران، لالا رشید، اکبر آسکانی اور لیلیٰ ترین شریک نہیں ہوئے تاہم تھوڑی دیرکے بعد لالا رشید اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچ گئے۔
سابق وزیراعلی نواب اسلم رئیسانی نے اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں 34 ارکان نے ووٹ دیا، 8 مزید ارکان بھی ووٹنگ کا حصہ بن سکتے ہیں، جام کمال کو چاہیے کہ استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں۔
دوسری طرف دنیا نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے کہا کہ ہم اپنے دوستوں کومنانے کی کوشش کررہے تھے، پانچ اراکین کوغائب کرنے کا الزام لگایا گیا، اراکین کوغائب کرنے کے الزام کی مذمت کرتا ہوں۔ اسمبلی اراکین کا ایوان میں آنا یا نہ آنا ان کا اپنا حق ہے، کسی کوزبردستی ایوان میں جانے سے روکا نہ لایا جا سکتا ہے، ہم ناراض اراکین کے ساتھ رابطے میں تھے، کچھ ناراض اراکین مان گئے باقی بھی مان جائیں گے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں قرار داد پیش کرنے والے اپنی شکست دے کرالزامات لگا رہے ہیں۔ مقدس ایوان میں ایسے الفاظ، رویئے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔
ترجمان لیاقت بلوچستان حکومت کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان اور ہمارے اتحادی وزیراعلیٰ جام کمال کے ساتھ ہیں، بار ہا کہا اکثریت ہمارے ساتھ ہے آج واضح ہو گیا، ایک،آدھ دوست ناراض ہے ان کوبھی منانے کی کوشش کررہے ہیں۔
لیاقت شاہوانی کا کہنا تھا کہ ہمارے دوست ہمارے ساتھ ہیں، ایک ڈنرپران کوبلا کرساتھ دینے کا دعوی کیسے کر سکتے ہیں، ہم کوئی دعویٰ نہیں کر رہے، حالات سب ثابت کر رہے ہیں، پکچر کلیئر ہے،ناراض اراکین واپس آجائیں گے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی قرار داد پیش ہونے کے بعد کہا ہے کہ کسی صورت استعفی نہیں دوں گا۔ ناکامی کاسامنا کرونگا یہ سیاست کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد کی قرار داد، کسی صورت استعفی نہیں دوں گا: وزیراعلیٰ بلوچستان
بلوچستان اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ نورمحمد نے پی ایچ ای وزارت سے استعفی دے دیا۔ جمہوری حوالے سے دل بڑا رکھنا چاہیے۔ میراگلہ اپوزیشن سے بنتا نہیں، اپوزیشن کو ساڑھے تین سالوں کے گلے شکوے ہیں۔ میراگلہ نالاں دوستوں سے بھی نہیں ہے۔ یہ سب سیاست کا حصہ ہے۔ جب ہم کہیں بات کرتے ہیں تو آج کے دور میں ہر چیز کو نمایاں کر دیا۔ ایسی بات کرنی چاہیے تاکہ چار ماہ بعد کھڑے ہو سکیں۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی معاملات وہ بات کریں جس کا کل دفاع کر سکیں، کسی کی سیاسی بات کو مائنڈ نہیں کیا۔ میں نہیں کہتا ہم سب ٹھیک کر رہے ہیں ۔ بہت سارے لوگ برداشت کرتے اور بہت سے نہیں کرتے۔
ترقیاتی کاموں کے حوالے سے جام کمال خان کا کہنا تھا کہ ہرضلع میں آج کام ہو رہا ہے۔ سیاست میں کسی اغواء نہیں کیاجاتا۔ ہم ناراض دوستوںسے قلم دان لے سکتے تھے۔ کسی کو ناراض ہونے سے روک نہیں سکتے، ہر جماعت کا ایک طریقہ کار ہوتاہے۔مجھے اپنی جماعت اور اتحادیوں نے ووٹ دیا، اپوزیشن نہیں۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ رائے شماری کے دن ہونے والے فیصلے کو قبول کرون گا استعفی نہیں دونگا، ناکامی کاسامنا کرونگا یہ سیاست کا حصہ ہے۔ گورننس چلانے والا ایڈمنسٹرٹر ہوتا ہے۔ سب کا مشکور ہوں، خاص کر اپوزیشن لیڈر کا جنہوں آج اچھی تقرر کی۔ ہر ایم پی اے کا وزن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ثناء بلوچ کا چیلنج قبول کرتا ہوں، اگر دو فیصد ووٹ نہ ملے تو ہمیشہ کیلئے سیاست چھوڑ دونگا،مگر اب ثناء کو اپنی بات قائم رہیں، میں سمجھ رہاتھاکہ اسد بلوچ پانچ سال تک رہے گا۔
سپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ لاپتہ اراکین کو اسمبلی آنے دیا جائے جس پر جواب دیتے ہوئے وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ اگر رکن اسمبلی لاپتہ ہیں تو ان کے لواحقین تھانے جاکر مقدمہ درج کرالیں۔ دہرےمعیار میں کسی چیز کو جانچبے کا پیمانہ ہونا چاہیے۔