افغانستان پر پابندیاں انسداد دہشتگردی،سمگلنگ کے مقاصد کو ختم کر سکتی ہیں: شاہ محمود

Published On 16 December,2021 07:43 pm

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مالیاتی پابندیوں اور منجمد اثاثوں نے افغانستان کے بینکنگ نظام کو مفلوج کر دیا ہے، افغانستان پر پابندیاں انسداد دہشت گردی اور سمگلنگ کے مقاصد کو ختم کر سکتی ہیں، منجمد اثاثے انسانی مقاصد کیلئے فنڈز کی منتقلی میں رکاوٹ ہیں، انسانی جانیں بچانے کیلئے پابندیوں پر نظرثانی ناگزیر ہے۔

خلیج ٹائمزمیں شائع آرٹیکل میں وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے منجمد اثاثوں کی بحالی انسانی جانیں بچانے کیلئے انتہائی ناگزیر ہے اور اس میں مزید تاخیر معاشی انہدام کا باعث بن سکتی ہے۔ اس قسم کا منظرنامہ انسداد دہشت گردی اور سمگلنگ کے ہمارے مشترکہ مقاصد کو ختم کر سکتا ہے۔ منجمد اثاثے پبلک سروسز، تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں میں ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں بنیادی رکاوٹ بھی ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان کے عوام کو فوری توجہ درکار ہے، افغانستان کو متاثر کرنے والا انسانی المیہ شاید آج دنیا کا بدترین المیہ ہے، اقوام متحدہ نے خطرے کا ادراک کیا ہے۔ اقوام متحدہ سیکرٹری جنرل انتونیو گیوترس نے کہا ہے کہ افغان عوام کئی دہائیوں کی جنگ اور عدم تحفظ کے بعد مشکل ترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ کئی ڈونرز، اقوام متحدہ، بین الاقوامی تنظیموں اور انسانی ہمدردی کے اداروں کی فراخدلی کی بدولت اشیاء خوردونوش اور زندگی بچانے والی دیگر اہم اشیاء کی فراہمی کے ذریعے مدد فراہم کی گئی ہے، محدود وسائل کے باوجود پاکستان 3 کروڑ ڈالر سے زائد انسانی ہمدردی کی بناء پر معاونت فراہم کر رہا ہے، اس نے ہیومینٹرین سپلائز کیلئے فضائی اور زمینی برج فراہم کیا اور راہداری تجارت میں سہولت دی تاہم ابھی بھی بہت زیادہ انسانی ہمدردی اور دیگر معاونت کی ضرورت ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ 5 لاکھ افغان باشندے داخلی طور پر بے گھر ہوئے ہیں، تقریباً 22.8 ملین افغان لوگوں کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے، ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق رواں موسم سرما میں لاکھوں افغان باشندوں کو بھوک یا نقل مکانی کے درمیان انتخاب کرنا ہو گا، میڈیا رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے ہزاروں افغان شہری ملک چھوڑنے کیلئے کوشاں ہیں، طویل تنازعہ، دیہی علاقوں میں دیرینہ خشک سالی، شہری علاقوں میں اقتصادی سرگرمی میں تعطل اور کورونا کے سماجی و اقتصادی اثرات کے نتیجہ میں افغانستان کے عوام کو شدید مشکلات درپیش ہیں۔ شدید موسم سرما اور دور افتادہ علاقوں کی بناء پر افغانستان میں اشیاء ضروریہ کی نقل و حمل کے چیلنجز بھی درپیش ہیں، گورننس کا نازک ڈھانچہ، سرمائے کی شدید قلت اور مالیاتی پابندیاں ملک میں اقتصادی طور پر شدید مشکل صورتحال کی عکاسی کرتی ہیں جن کے نتیجہ میں انسانی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان عوام کو اب تنہا چھوڑنے کا وقت نہیں ہے اور انہیں تنہا چھوڑنا ایک المیہ ہو گا جس کے نتیجہ میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی، تنازعات، عدم استحکام اور دہشت گردی جنم لے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال اور شراکت اقتدار کی حالت پر تحفظات جائز ہیں اور ان تحفظات کا سول، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی سطح پر کا ازالہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے اندر افغان عوام کی مدد بھی ضروری ہے۔ عام افغان شہری نہ تو سابق حکمرانوں کی ناکامیوں کے ذمہ دار ہیں اور نہ ہی انہیں حالیہ واقعات کی سزا دینا چاہئے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ بحران ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ افغانستان کیلئے امن، سکیورٹی، ترقی اور انسانی حقوق کیلئے راستہ ہموار کیا جائے، اس مقصد کیلئے ہمیں عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، سیاسی اور اقتصادی روابط کی رفتار کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان او آئی سی کونسل برائے وزراء خارجہ اجلاس کی اسلام آباد میں 19 دسمبر کو میزبانی کر رہا ہے۔ اجلاس کا مقصد افغان عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا ہے اور افغانستان کو انسانی امداد کی فراہمی کیلئے مؤثر چیلنج میں معاونت کرنا ہے۔ او آئی سی اقوام متحدہ کے بعد دوسری بڑی بین الحکومتی تنظیم ہے اور افغان عوام کی مدد کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ پاکستان توقع رکھتا ہے کہ او آئی سی کے رکن ممالک اور عالمی برادری اس مشکل وقت میں افغان عوام کو ہر ممکن تعاون فراہم کریں گے۔