اسلام آباد: (دنیا نیوز) او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس میں افغانستان میں معاشی و اقتصادی بحران سے نمٹنے پر مشاورت ہوئی۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیا نےاقدامات نہ کیے تو افغانستان میں بہت بڑا انسانی بحران پیدا ہو گا۔
او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس میں اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ، یورپی یونین ممالک سمیت 70 سے زائد عالمی تنظیموں کے وفود شریک ہیں۔ اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن مجید کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ابتدائی کلمات سے ہوا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ افغانستان میں امن کیلئے پاکستان نےسب سےزیادہ کاوشیں کیں، دنیا تمام چیزوں سے بالاتر ہو کرافغان معاملے پر آگے بڑھے، پاکستان افغانستان کیلئے جو ہو سکتا ہے وہ کر رہا ہے، بھارت سے خوراک اور ادویات افغانستان پہنچانے کیلئے سہولت دی، افغانستان کا معاشی بحران خطے کو بری طرح متاثر کرے گا، غیرمعمولی اجلاس کیلئے او آئی سی کا پاکستان پر اعتماد خوش آئند ہے، پاکستان نے 40 سال پہلے بھی افغانستان کے معاملے پر اجلاس بلایا تھا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 1980 کے بعد او آئی سی کا اجلاس پاکستان میں پھر ہو رہا ہے، افغانستان کی نصف آبادی خوراک کی کمی کاشکارہے، انہیں ادویات کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام افغانستان میں خوراک کے مسئلے کی نشاندہی کر چکا۔ افغانستان کے معاشی حالات عالمی برادری کی توجہ کے طالب ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ ہم مہاجرین کے ایک اور سیلاب سے نبردآزما ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے، مہاجرین کا مسئلہ پوری دنیا کا ہے۔ افغانستان کی صورت حال انتہائی سنگین، بینکنگ سسٹم جمود کا شکار ہے۔ کشمیر اور فلسطین کےعوام بھی ہماری طرف دیکھ رہےہیں، ہمیں ہر فورم پر کشمیر اور فلسطین کیلئے آواز اٹھانا ہو گی۔
سعودی وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان نے کم ترین وقت میں اجلاس کو ممکن بنایا، افغانستان میں کشیدہ صورتحال کے خطے اور دنیا پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، ہم افغانستان میں امن کےخواہاں ہیں، برادر اسلامی ملک کے معاملے کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر دیکھنا ہو گا۔
پرنس فیصل بن فرحان نے کہا کہ افغان عوام ہماری مدد کےمنتظرہیں، افغانستان میں مالی بحران مزیدسنگین ہو سکتا ہے، سعودی عرب نے افغانستان کیلئے ایک ارب ریال مختص کئے ہیں۔ دنیا کوعالمی امن کیلئے افغانستان میں کردار ادا کرنا ہو گا۔ بعد ازاں سیکرٹری جنرل او آئی سی حسین ابراہیم طہ اور اسلامک ڈیویلپمنٹ بینک کے صدر نے بھی کانفرنس سے اظہار خیال کیا ۔ پہلے سیشن کے اختتام سے قبل وزیراعظم عمران خان نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی بیرونی امداد بند ہو چکی، اس کے 75 فیصد بجٹ کا انحصار غیرملکی امداد پر رہا ہے، افغان آبادی غربت کی لکیر سے نیچے آ رہی ہے، کسی بھی ملک کو افغانستان جیسی مشکلات کا سامنا نہیں رہا، افغانستان 4 دہائیوں سے خانہ جنگی کا شکار رہا ہے، ان حالات کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا، افغانستان کی مدد کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
سیکر ٹری جنرل او آئی سی اور شاہ محمود قریشی ساڑھے 6 بجے مشترکہ پریس کانفرنس کریں گے، آزربائیجان کے وزیر خارجہ جیہون بیراموف اور کویت کے وزیر خارجہ شیخ ڈاکٹر احمد ناصر المحمد الصباح اپنے وفود کے ہمراہ اجلاس میں موجود ہیں۔ انڈونیشیا کی وزیر خارجہ ریتنو مرسودی، بوسنیا کی وزیر خارجہ ڈاکٹر بسیرا ترکووچ بھی غیر معمولی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ ترکمانستان کے وزیر خارجہ راشد میرودوف اور ملایشیا کے وزیر خارجہ سیف الدین عبداللہ بھی او آئی سی اجلاس میں اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
نائیجر کے نائب وزیر خارجہ يوسف المقطر ، افغانستان کے وزیرخارجہ عامر خان اور نائب وزیر خارجہ بھی کانفرنس ہال میں موجود ہیں، امیر حجازی کی قیادت میں فلسطینی وفد،ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر حسین عامر، قازقستان کے نائب وزیرخارجہ بھی اجلاس میں وفود کے ہمراہ شرکت کر رہے ہیں۔ گیمبیا کے وزیر خارجہ اورجاپان کے سفیر بھی او آئی سی اجلاس میں شریک ہیں۔
وزارت داخلہ کی جانب سے اس غیر معمولی اجلاس کی وجہ سے ہفتہ اور پیر کو اسلام آباد کی سطح پر مقامی تعطیل کی گئی ہے۔او آئی سی کے غیر معمولی اجلاس کے موقع پر وفاقی دارالحکومت میں فول پروف سکیورٹی کے انتظامات کئے گئے ہیں۔
اس اجلاس کے موقع پر ریڈ زون میں عام شہریوں کا داخلہ بند ہو گا۔ اس دوران میٹرو بس سروس کے اسلام آباد میں ابتدائی تین سٹیشن اور تمام ہائیکنگ ٹریکس بند رہیں گے۔ اجلاس کے دوران شاہراہ دستور ٹریفک کیلئے بند ہو گی۔