مری: (دنیا نیوز) مری میں 23 افراد کی ہلاکت کے بعد ضلعی انتظامیہ نے ملکہ کوہسار میں داخلے کے لیے مشروط اجازت دیدی۔
یاد رہے کہ مری میں شدید برف باری کے بعد کئی گھنٹوں تک ٹریفک میں پھنسے رہنے والی گاڑیوں میں بچوں اور خواتین سمیت 23 اموات ہوئی تھیں۔ ان اموات کے بعد پنجاب حکومت نے انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے جو مختلف پہلوؤں سے معاملے کا جائزہ لے کر تجاویز حکومت کو دے گی۔ انکوائری کمیٹی کو سات دن میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے مری میں ہلاک ہونے والے افراد کے ورثا کے لیے ایک کروڑ 76 لاکھ روپے مالی امداد کااعلان بھی کیا تھا اور مری کو ضلع بنانے کا اصولی فیصلہ کیا گیا تھا جبکہ مری میں فوری طور پر ایس پی اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے عہدوں کے افسروں کو تعینات کیا جائے گا۔
مری میں روزانہ 8 ہزار گاڑیوں کی اجازت دیدی گئی
کمشنر راولپنڈی کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق مری میں روزانہ 8 ہزار گاڑیوں کی اجازت دے دی گئی، 17 جنوری تک مری سیاحوں کے لئے بند رہے گا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق داخلی گاڑیوں پر پابندی مری اور آزادکشمیر کے رہائشیوں پر لاگو نہیں ہو گی، چیف ٹریفک آفیسر مری ٹریفک پلان ترتیب دیں گے، حد سے زائد گاڑیوں کو روکنے کی ذمہ داری بھی چیف ٹریفک آفیسر کی ہو گی۔
نوٹیفکیشن کے مطابق شام 5 بجے سے صبح 5 بجے کے درمیان مری میں سیاحوں کا داخلہ نہیں ہوسکے گا، ایکسین چیف ٹریفک آفیسر محکمہ موسمیات سے مکمل رابطے میں رہیں گے، چیف ٹریفک آفیسر، سٹی پولیس آفیسر مناسب نفری تعینات کرنے کے پابند ہونگے۔
مزید انکشافات سامنے آ گئے
دوسری طرف سانحہ مری تحقیقات کے مزید انکشافات سامنے آ گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق مری میں گنجائش سے زیادہ گاڑیاں حادثے کا باعث بنی، پنجاب ہائی وے ڈیپارٹمنٹ کی برف ہٹانے کی 16 مشینیں سانحہ کے دوران کام میں مصروف رہی، پنجاب ہائی وے کے لوڈرز اور برف ہٹانے کی مشینیں کلڈنہ، جی پی او چوک سمیت 7 مقامات پر موجود تھیں، گنجائش سے زیادہ ٹریفک داخلہ اور غلط پارکنگ سے مشینری کی نقل و حرکت میں مسائل ہوئے۔ ٹریفک جام ہونے سے مشینیں آفت ذرہ سڑکوں پر ہونے کے باوجود صحیح کام نہ کرسکیں، لارنس کالج روڈ کو ون وے کرکے ٹریفک کو رواں رکھا جا سکتا تھا، شدید برفباری سے ممکن نہ ہوا۔
سانحہ مری : برف ہٹانیوالی 20 گاڑیاں ایک ہی مقام پر کھڑی ہونے کا انکشاف
یاد رہے کہ سانحہ مری کی تحقیقات میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں جس کے مطابق طوفان کے دوران برف ہٹانے والی 20 گاڑیاں ایک ہی مقام پر کھڑی تھیں، ڈرائیور موجود تھے نہ ہی دیگر عملہ جبکہ محکمہ جنگلات کے حکام کمیٹی کو تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہے۔
سانحہ مری کی تحقیقات آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہیں ، تحقیقاتی کمیٹی نے پنجاب ہاؤس مری میں آپریشنل عملے اور برفانی طوفان کے دوران مدد کیلئے موصول ہونے والی کالز کے بارے میں ریسکیو 1122 کے اہلکاروں کے بیانات قلمبند کیے ۔
برف ہٹانے والی گاڑیوں سے متعلق ہائی وے مکینیکل ڈیپارٹمنٹ نے بتایا کہ 29 گاڑیوں میں سے 20 گاڑیاں ایک ہی مقام پر ایک نجی بینک میں کھڑی رہیں جبکہ ڈرائیوز اور عملہ ڈیوٹی پر موجود نہ تھا۔ پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کا راولپنڈی ڈسٹرکٹ میں دفتر موجود نہ ہونے کا بھی انکشاف ہوا۔
محکمہ جنگلات کے حکام یومیہ اجرت اور سڑکوں پر گرے درخت ہٹانے والے مزدوروں کے بارے میں سوالا ت کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے جس پر کمیٹی نے عملے کی تفصیلات اور ذمہ داریوں سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔
کمیٹی کو بتایاگیا کہ مری میں شدید برفباری کی وارننگ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے جاری کی گئی جبکہ ضلعی انتظامیہ نے مری کے داخلی راستوں سے تقریباً 50 ہزار گاڑیاں واپس بھیجیں۔
سانحہ مری، تحقیقاتی کمیٹی جلد از جلد حقائق سامنے لائے: وزیراعظم عمران خان
خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ سانحہ مری پر بننے والی تحقیقاتی کمیٹی جلد از جلد حقائق سامنے لائے۔ ریسکیو آپریشن میں فوج کی کاوشیں قابل تعریف تعریف ہیں۔
وزیراعظم کی صدارت میں حکومتی رہنماؤں اور ترجمانوں کا اجلاس ہوا جس میں موجودہ سیاسی صورتحال، سانحہ مری پر بریفنگ دی گئی۔
اجلاس کے دوران سول ملٹری تعلقات پر بھی بات چیت کی گئی، اجلاس کے دوران وزیراعظم کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار کی طرف سے چند روز قبل کی جانے والی پریس کانفرسن کے بعد سول ملٹری تعلقات سے متعلق اپوزیشن کا بیانیہ دم توڑ گیا۔
اجلاس کے دوران وزیراعظم کو بتایا گیا کہ سانحہ مری پر تفصیلی بریفنگ ایک لاکھ 64 ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں۔وزیراعظم نے استفسار کیا کہ کیا بروقت اقدامات سے سانحہ مری کو روکا جا سکتا تھا؟
ذرائع کے مطابق اجلاس میں وفاقی وزراء ضلعی انتظامیہ کے حق میں بول پڑے، وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ پوری صورتحال کے دوران انتظامیہ اور پولیس نے بہترین کام کیا، شام پانچ بجے ہی مری جانے والے راستے بند کردیے تھے، حالات پولیس کے کنٹرول سے باہر تھے، رینجرز طلب کرنا پڑی۔
اس موقع پر عمران خان کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں سیاحت ایک نئی حقیقت ہے، سیاحت بڑھ گئی ہے، انفراسٹرکچر کئی دہائیاں پیچھے ہے، نئے ہوٹلز کی تعمیر کے ساتھ پرانے سٹرکچر کو بہتر کرنا لازمی ہے، بڑھتے ہوئے سیاحوں کو معیاری رہائش کی فراہمی ایک چیلنج ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے ریسکیو آپریشن میں سول اداروں اور فوج کی کاوشوں کی تعریف کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ کمیٹی جلد از جلد سانحہ مری کے حقائق سامنے لائے، سیاحتی مقامات پر ساری چیزوں کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، مری میں انفراسٹرکچر کی کمی کو دور کرنے پر زور دیا جائے، جدید طریقے سے سارے معاملے کو ہینڈل کیا جائے۔