اسلام آباد: (عامر سعید عباسی) اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف کی اکبر ایس بابر کو الیکشن کمیشن کا مکمل ریکارڈ دینے سے فوری روکنے کی استدعا مسترد کردی، عدالت نے الیکشن کمیشن اور اکبر ایس بابر کو نوٹس جاری کرکے یکم اپریل تک جواب طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن نے جو ریکارڈ خود سٹیٹ بینک آف پاکستان اور مختلف ذرائع سے حاصل کیا ہے اس تک اکبر ایس بابر کو رسائی نہ دی جائے اور اکبر ایس بابر کو صرف اپنے ریکارڈ کی حد تک دلائل دینے کا حکم دیا جائے جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ کسی شخص کو الیکشن کمیشن میں مختصر دلائل کا حکم کیسے دے سکتے ہیں؟
پی ٹی آئی وکیل انور منصور خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سکروٹنی کمیٹی بنائی تھی جس کے ٹی او آر دئیے گئے، سکروٹنی کمیٹی نے سٹیٹ بینک سے معلومات خود لیں، ان کا اکبر ایس بابر سے تعلق نہیں جو معلومات ایڈمنسٹریٹو سائیڈ پر الیکشن کمیشن نے خود لیں ان کو اکبر ایس بابر سے شئیر نہیں کر سکتے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ چاہتے کہ الیکشن کمیشن نے جو معلومات خود لیں اس تک اکبر ایس بابر کو رسائی نہ دیں؟ قانون پڑھ کر بتائیں کہاں الیکشن کمیشن کو ایسی معلومات تک کسی کو رسائی دینے سے روکا گیا ہے۔ عدالت نے پی ٹی آئی وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اتنا مت گھبرائیں سکروٹنی کمیٹی نے تو اکبر ایس بابر کو اتنا وزن ہی نہیں دیا، خود رپورٹ تیار کی۔ الیکشن کمیشن پر کوئی پابندی نہیں، وہ کسی بھی ادارے کو بلا کر معلومات لے سکتا ہے۔
پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں الیکشن کمیشن اپنے اختیار سے باہر نہیں جا سکتا، الیکشن کمیشن نے جو معلومات خود لیں ان میں اکبر ایس بابر کی زیرو معلومات ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے لیے آپ جوڈیشنل آرڈر کے ذریعے کوڈ آف کنڈکٹ بنوانا چاہ رہے ہیں؟ کیا آپ کے جواب سیکرٹ ڈاکومنٹ ہیں ؟ عدالت نے پی ٹی آئی کی اکبر ایس بابر کو الیکشن کمیشن کا ریکارڈ دینے سے فوری روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن اور اکبر ایس بابر کو سن کر فیصلہ کریں گے۔ اسلام آبادہائیکورٹ نے یکم اپریل تک الیکشن کمیشن اور اکبر ایس بابر کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرلیا۔