نظریاتی جنگ اور سوشل میڈیا

Published On 20 April,2022 03:01 pm

لاہور: (محمد علی راؤ) اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جس کے ہاتھ میں معلومات کی ارسال کا اختیار ہے وہ بلاشبہ اس دنیا کو چلانے کا اختیار رکھتا ہے۔ وہ زمانے چلے گئے جب جنگوں کیلئے قافلے، ہتھیار ، سپاہی سمیت بیشتر وسائل کے مرہونِ منت ہو کر جنگ کی تیاری کی جاتی تھی۔ حالیہ دور میں جنگ صرف بیانیے کی ہے ۔

ہم آج تک تاریخ کا وہ رْخ پڑھتے چلے آئے ہیں جو فاتح نے لکھا، مشہور مقولہ ہے ’’تاریخ ہمیشہ فاتح کی زبانی لکھی جاتی ہے ‘‘ چاہے وہ درست ہو یاغلط۔ اِسی ریت رواج کو پروان چڑھاتے ہوئے افغانستان میں ہوئی وار آن ٹیرر میں جتنا استعمال انفارمیشن ٹیکنالوجی کاکیا گیا شاید ہی کسی اور چیز کا کیا گیاہو۔بالخصوص ٹیکنالوجی کے دیوتاؤں کی بات کی جائے تو فیس بک، گوگل، مائیکرو سافٹ اور ایمازون نے امریکی حکومت سے 44.5 ارب امریکی ڈالر کے معاہدے کیے۔ ان معاہدوں کے تحت ان پرائیویٹ کمپنیوں نے امریکی افواج کی امداد کرتے ہوئے انہیں ڈیجیٹل ٹولز فراہم کرنے تھے ،جن میں ڈیٹا بیس ، نگرانی ، ڈرون ٹیکنالوجی اور مؤقف کے ارسال کے لیے ان پلیٹ فارمز کا استعمال شامل تھا۔

ایک نجی ادارے کے مطابق فیس بک نے ساڑھے تین لاکھ ڈالر مالیت کے اشتہارات چلائے۔ جن میں اسلام کو ایک تشدد پسند مذہب کے طور پر پوری دنیا کو دکھایا گیا۔ وار آن ٹیرر میں ان ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے مالکان نے مغربی چورن خوب بیچا اور اس سے خود بھی خاصے مستفید ہوئے۔ یہ کہنا غلط نا ہوگا کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم نظریہ قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق فیس بک کا استعمال روزانہ کی بنیاد پر 2.7 ارب لوگ کرتے ہیں ، ٹوئٹر 206 ملین جبکہ یو ٹیوب کا استعمال 122 ملین لوگ روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں تو کتنے لوگوں تک رسائی ان لوگوں کو حاصل ہے اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
ماضی میں مغربی چورن سے نہال ہونے والے ادارے ایک بار پھر روس اور یوکرین کی جنگ میں سر گرم نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں روس اور یوکرین کی جنگ کے ساتھ ساتھ روسی اور مغربی نظریے کی جنگ بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ جس میں روس کا مؤقف بھرپور دبانے کی پالیسی پر کام کیا گیا ہے۔

جنگ کے ماحول میں خبر کی شفافیت کا اندازہ لگانالگ بھگ ناممکن ہوتا ہے۔ جس کی بڑی وجہ جنگ کے میدان تک رسائی کا محدود ہونا ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر پھیلی خبروں پر انحصار کرنا ہی واحد ذریعہ بچتا ہے ۔ اگر وہ ذریعہ بھی تعصب زدہ ہو تو شفافیت محض سوالیہ نشان بن کر رہ جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں میں اس کی مثال اس بات سے لگائی جا سکتی ہے کہ ایک جانب مغربی طرز کی خبریں سوشل میڈیا پر نظر آتی ہیں تو دوسری جانب روسی طرز کی خبریں۔ ایک ہی دن میں یوکرین کی طرف سے روس کے 11ہزار سپاہیوں کی ہلاکت کا انکشاف سامنے آتا ہے جبکہ اْسی روز روس اسے مسترد کر کے 487 سپاہی ہلاک ہونے کا اعلان کر دیتا ہے۔ اب کس خبر کو سچ مانا جائے۔

ماضی کے تناظر میں بھی سوشل میڈیا کے تعصب زدہ ہونے کے شواہد مل چکے ہیں جبکہ اس بار بھی مغرب اپنے نظریے کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے بھرپور اقدام اٹھاتا نظر آرہا ہے۔ ٹیکنالوجی کی دنیا میں دیو قامت حیثیت رکھنے والے ٹیک جائینٹس ٹوئٹر، فیس بک، یوٹیوب، گوگل اور ایپل مغربی نظریے کے ٹھیکیدار دکھائی دے رہے ہیں۔ ان نیٹ ورکس نے سرِ عام مغربی نظریے کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ گوگل نے روس میں مقیم لوگوں کی موناٹائیزیشن منسوخ کر دی ہے ، اس سے روسی باشندوں کا روزگار بھی متاثر ہو رہا ہے۔ ایپل نے اپنی تمام اشیاء کی فروخت روس میں بند کرتے ہوئے روسی ایپلی کیشنز کو بھی ایپ سٹور سے ہٹا دیا ہے۔ ٹوئٹر پر روس کی حمایت میں لکھی گئی پوسٹ پر وارننگ دے رہا ہے جبکہ میٹا نے فیس بک اور انسٹاگرام پر اجازت دے دی گئی ہے کہ روس کے خلاف کسی بھی قسم کا مواد پوسٹ کیا جا سکتا ہے۔

ان باتوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایک عام فہم شخص بھی اس نتیجے پر نکلتا ہے کہ تمام ٹیکنالوجی کے دیوتا مغرب کے نظریے کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور روس کے خلاف ایک ثابت قدم محاذ بنائے اپنی پالیسی کو نبھانے میں بھرپور سرگرم ہیں ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں جو روس کی جانب سے بربریت دکھائی جا رہی ہے وہ قابلِ مذمت ہے مگر مغربی جانب سے اس کی تشہیر بھی خاصہ بگاڑ پیدا کر رہی ہے۔ اپنے نظریے کو قائم کرنے سے پہلے ایک بار پھر حالات کا تفصیلی جائزہ ضرور لیجیے کیوں کہ یہ نظریے کی جنگ ہے اور اس نظریہ کا ہر فرد اس جنگ کا سپاہی ہے، اس لئے ہر شخص کا محتاط رہنا بیحد ضروری ہے۔ دورِ حاضر میں نفسیاتی جنگ پر خاصا کام کیا جا رہا ہے ، آج کے دور میں سپاہیوں سے زیادہ اوپینین لیڈرز کی تربیت کی جا رہی ہے تا کہ وہ اپنے مخصوص خیالات کو اپنے نظریے میں ڈھانپ سکیں۔

پاکستان کے تناظر میں بات کی جائے تو حال ہی میں کیے گئے سوشل میڈیا پر منتشر ارکان کے خلاف آپریشن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نظریاتی لڑائی محض بیرونی طور پر ہی نہیں بلکہ اندرونی طور پر بھی لڑی جا رہی ہے۔ مختلف سوشل میڈیا کے ونگز بنا کر سیاسی جماعتیں اپنا مؤقف تصاویر و تحاریر کے ذریعہ پہنچاتی نظر آ رہی ہیں۔ تو بات وہیں آ پہنچتی ہے میدان چاہے بڑا ہو یا چھوٹا ، کھیلنے والے سیاسی ہوں یا سماجی، جنگ محض نظریے کی ہی ہے اور جس کا نظریہ زیادہ لوگوں تک پہنچتا اور سراہا جاتا ہے وہ سامراجیت کا بھرپور مزہ لوٹتا ہے ۔


 

Advertisement