لاہور (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) کسی بھی قوم کی نشوونما اور تعمیر و ترقی کیلئے عدل و انصاف ایک بنیادی ضرورت ہے۔ جس سے مظلوم کی نصرت، ظالم کا قلع قمع اور جھگڑوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے، حقوق کو مستحقین تک پہنچایا جاتا ہے، دنگا فساد کرنے والوں کو سزائیں دی جاتی ہیں تاکہ معاشرے کے ہر فرد کی جان و مال، عزت و حرمت اور مال و اولاد کی حفاظت کی جا سکے۔ یہی وجہ ہے اسلام نے قیام عدل کا انتہا درجہ اہتمام کیا ہے۔
نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں میں فیصلہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے نبی کریمؐ! آپؐ لوگوں کے درمیان اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلہ کریں‘‘۔ نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ مسلمانوں کیلئے دین و دنیا کے تمام امور میں مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کی تنہا ذات میں حاکم،قائد،مربی،مرشد اور منصف اعلیٰ کی تمام خصوصیات جمع تھیں۔جو لوگ آپ ﷺ کے فیصلے پر راضی نہیں ہوئے ا ن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سنگین وعید نازل فرمائی اور اپنی ذات کی قسم کھا کرآپﷺ کے فیصلے تسلیم نہ کرنے والوں کو اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔نبی کریم ﷺکے بعد خلفاء راشدین سیاسی قیادت، عسکری سپہ سالاری اور دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ منصف و قاضی کے مناصب پر بھی فائز رہے اور خلفاء راشدین نے اپنے دور ِ خلافت میں دور دراز شہروں میں متعدد قاضی بناکر بھیجے۔ آئمہ محدثین نے نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ کے فیصلہ جات کو کتبِ احادیث میں نقل کیا ہے۔ بعض اہل علم نے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے فیصلوں پرمشتمل کتب بھی لکھی ہیں۔
نظام عدل قرآن کی روشنی میں: نظام عدل ایک نہایت با عزت منصب ہے،اس کا احترام کرنا فر ض ہے۔دین ِاسلام میں اس کام کی جواہمیت اور مقام و مر تبہ ہے اس سے واقفیت حاصل کرنی چاہیے۔ اسی منصب کی تکمیل کیلئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام بھیجے۔ عدل اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ اس کے اسماء الحسنی میں ایک اسم مبارک بھی ہے۔ ارشا د باری تعالیٰ ہے: ’’اور اللہ حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا (الغافر: 20)۔اس آیت مبارکہ میں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا انسانی اعمال کے بارے میں فیصلہ کا بیان ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ بے لاگ فیصلہ فرمائے گا۔ جس میں کسی کی بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔
نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ’’قضا‘‘ کے منصب پر فائز کیا اور اس کے کچھ اصول مقرر کیے جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور فرما دیجئے میں اس کتاب پر ایمان رکھتا ہوں جو اللہ نے نازل فرمائی ہے اور مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل قائم کروں(الشوری: 15)۔ دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اور کہہ دیجئے کہ میرے رب نے مجھے انصاف کا حکم دیا ہے‘‘(الاعراف: 29)۔’’اور اگر تو ان کے درمیان فیصلہ کرے تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کر، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (المائدہ: 42)۔
’’
اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث عدل کو ہرگز نہ چھوڑو، عدل کرو یہی تقویٰ کے بہت زیادہ قریب ہے(المائدہ: 8)۔
نظام عدل احادیث مبارکہ کی روشنی میں: حضرت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا کہ کوئی حاکم دو آدمیوں کے درمیان غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرے (جامع ترمذی: 1334)۔ حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب حاکم اجتہاد کر کے فیصلہ کرے اور صواب کو پہنچے(درست فیصلہ کرے) تو اس کیلئے دو اجر ہیں اور جب اجتہاد کر کے فیصلہ کرے اور خطا کر جائے تو اس کیلئے ایک اجر ہے(سنن ابی داؤد: 3574 (
حضرت بریدہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قاضی تین قسم کے ہیں، ان میں سے ایک جنت میں اور دو دوزخ میں ہیں، جنتی وہ ہے جو حق کو پہچانے اور اس کا فیصلہ کرے، اور جو شخص حق کو تو پہچانے مگر فیصلے میں ظلم کرے تو وہ آگ میں ہے او رجو شخص جہالت کی بنا پر لوگوں کے فیصلے کرے وہ بھی آگ میں ہے۔(سنن ابی داؤد: 3573(
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے مسلمانوں کا قاضی بننے کا مطالبہ کیا یہاں تک کہ یہ مرتبہ حاصل کر لیا، پھر اس کا انصاف اس کے ظلم پر غالب ہو، تو اس کیلئے جنت ہے، اور جس کا ظلم اس کے انصاف پر غالب ہو، اس کیلئے آگ ہے۔(سنن ابی داؤد: 3575(
حضرت علی المرتضیؓ سے روایت ہے، کہ مجھے رسول اللہﷺ نے قاضی بنا کر یمن بھیجا ، میں نے عرض کیا :کہ یا رسول کریمؐ! آپﷺ مجھے بھیج رہے ہیں حالانکہ میں نو عمر ہوں اور مجھے فیصلہ کرنے کا علم نہیں ہے۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہارے دل کو ہدایت اور تمہاری زبان کو پختگی عطا فرمائے گا، جب دو شخص تمہارے پاس مقدمہ پیش کریں تو پہلے کیلئے فیصلہ نہ کرنا، یہاں تک کہ دوسرے کی بات نہ سن لو۔ فرماتے ہیں: اس کے بعد مجھے کسی فیصلے میں شک واقع نہیں ہوا۔ (سنن ابی داؤد: 3582(
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓسے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ قاضی کے ساتھ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے ،جب اس نے ظلم کیا تو اس سے جدا ہو جاتا ہے اور شیطان اسے پکڑ لیتا ہے۔(جامع ترمذی:1330)، حضرت عبداللہ بن عمروؓسے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر لعنت فرمائی۔ )جامع ترمذی: 1337 (
اسلام میں سب سے پہلے قاضی خود رسول اللہ تھے جنہوں نے عدل کا بول بالا کیا۔ نبی کریم ﷺکے عدالتی طریق کار کے بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا عہد ِقضا آتا ہے، ان کے معمول کے متعلق رئیس احمدجعفری لکھتے ہیں:’’اگر کتاب وسنت سے کوئی نظیر نہیں ملتی تھی تو وہ باہر تشریف لے جاتے اور مسلمانوں سے کہتے کہ میرے سامنے یہ مسئلہ درپیش ہے، کیا تم جانتے ہو؟وہ اس کے بارے میں جو بات کہتے ان سے مشورہ کرکے قرآن وسنت کی روشنی میں فیصلہ کرتے۔(سیاست شرعیہ، ص127 (
حضرت عمرؓ نے بھی حضرت ابوبکر ؓ والا اصول اپنایا کہ پہلے قرآن وسنت سے مسئلے کا فیصلہ ڈھونڈتے تھے۔ اس کے بعد دیکھتے تھے کہ حضرت ابوبکر ؓ کے زمانے میں اس کے بارے میں کیا فیصلہ ہوچکا ہے؟ اگر معلوم ہوجاتا تو حضرت ابوبکر ؓ کے فیصلہ کو نافذ کردیتے ، ورنہ وہ بھی اہل حل وعقد کو جمع کرتے اور باہمی مشاورت سے جو فیصلہ ہوتا، اس کو نافذ کردیا جاتا۔
مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل اور20 سے زائد کتب کے مصنف ہیں