اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی نے بل پاس کر کے صاف اور شفاف انتخابات کی بنیاد رکھ دی، محنت سے کام کرکے حالات کا رخ موڑا، پہلے ہی معیشت کا بیڑا غرق ہے، اب کسی کو فتنہ ،فساد پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے، انتخابات کے حوالے سے جتھے کے سربراہ عمران خان کی ڈکٹیشن نہیں چلے گی اور انتخابات کب کرانے ہیں اس کا فیصلہ ایوان کرے گا۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 10 اپریل 2022ء تاریخ ساز دن تھا۔ پہلی بار پاکستان کی تاریخ میں آئین’ قانون کی روح کے مطابق عدم اعتماد کی قرارداد کامیاب ہوئی۔ آئین کے مطابق اس ایوان کی منشا اور ووٹوں سے نئی حکومت قائم ہوئی ۔ نہ دیواریں پھلانگی گئیں’ نہ گرفتاریاں ہوئیں اور پاکستان اور اس ایوان کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوا۔ تمام اداروں نے اس پارلیمنٹ کی کوکھ سے جنم لیا ہے یہ ان کی ماں ہے۔ کیا جتھے یا کسی جماعت کو ڈنڈوں اور پتھروں کے ذریعے آئین سے بغاوت کا حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ آئین کو تہہ و بالا کر دے۔
ان کا کہنا تھا کہ 11 اپریل کو حلف اٹھایا اس وقت اتحادی حکومت کے سامنے دو اہداف تھے۔ ایک تو شفاف طریقے سے الیکشن کرانا جس کے لئے یہاں آج بل پیش کیا گیا ہے’ اس بل کی منظوری پر ایوان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بل منظور کرکے شفاف الیکشن کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اس کے لئے تمام قائدین اور ممبران کا شکرگزار ہوں۔ سپیکر کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کے لئے بحث کرائی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا دوسرا ہدف ڈوبتی اور ہچکولے کھاتی معیشت کو کنارے لگانا ہے، یہ ایک مشکل کام ہے لیکن دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی حالات مشکل اور چیلنجز بڑے ہوں تو اتنی ہی قوت اور محنت سے کام کرنا پڑتا ہے تبھی حالات کا رخ بدلتا ہے۔ قرآن کریم اور اسوہ حسنہ سے بھی ہمیں اس بات کا درس ملتا ہے کہ محنت سے کام کریں گے تو آگے بڑھیں گے۔ ان اہداف کے لئے دن رات محنت کر رہے ہیں’ ایسے حالات میں جب پچھلی حکومت نے معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا اس کو ٹھیک کرنے کے لئے سخت محنت کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں فتنہ’ فساد’ نفرتوں یا انارکی کی گنجائش نہیں ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ 2014ء میں جب ڈی چوک میں دھرنا ہو رہا تھا اور سپریم کورٹ کی دیواروں پر کپڑے سکھائے گئے تھے اور قبریں کھودی گئی تھیں اس وقت عمران نیازی گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہا تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم کو بھی پکڑ کے لے آئو’ اس نے رات کی تاریکی میں پارلیمان اور پی ٹی وی پر حملہ کردیا۔ وہ دلخراش مناظر آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور ان دھرنوں کی وجہ سے چین کے صدر جو پاکستان کے بہترین دوست ہیں انہوں نے پاکستان کا دورہ ملتوی کردیا حالانکہ چینی سفیر نے بھی عمران نیازی کو یہ پیغام بھجوایا تھا کہ چین کے صدر پاکستان آرہے ہیں اس لئے دھرنے کی جگہ خالی کردیں لیکن عمران نیازی نے انکار کردیا۔ چین کی طرح اسلامی ممالک بھی ہمارے دوست ہیں۔ یہ عمران نیازی کی پاکستان کی ترقی و خوشحالی، غریبوں، بیوائوں اور اندھیروں کے خاتمے کے لئے کی جانے والی کوششوں کے خلاف ایک سازش تھی، چینی صدر کا دورہ موخر ہونے سے ہمارے معاہدے بھی تاخیر کا شکار ہوئے اور سات ماہ کے بعد جب دوبارہ وہ پاکستان آئے تو چین کے ساتھ ہمارے معاہدے ہوئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے کیروٹ پن بجلی منصوبے کا دورہ کیا ہے’ یہ 720 میگاواٹ کا منصوبہ ہے، اگر 2014ء میں اس منصوبے کے حوالے سے معاہدے پر دستخط ہو جاتے تو یہ ایک سال پہلے مکمل ہوتا اور ہمیں 700 میگلاواٹ بجلی پہلے میسر آجاتی۔ دورے کے دوران چینی کمپنی کے سربراہ نے ہمیں کہا ہے کہ جب تک کمرشل طور پر بجلی سسٹم میں شامل نہیں ہوتی اس وقت تک آپ ہمیں ادائیگی نہ کریں۔ اس سے پاکستان کو 4 ارب روپے کا فائدہ ہوگا اور یہ رقم ہم کسی جگہ کینسر ہسپتال، یونیورسٹیاں بنانے اور بلوچستان میں شمسی توانائی کا پلانٹ لگانے پر خرچ کر سکتے ہیں یا پھر اس سے غریبوں کا مفت علاج ہو سکتا ہے۔ ہماری قوم بہت دکھی ہے’ پچھلے پونے چار سال کے دوران عمران نیازی نے گالی گلوچ کے سوا کچھ نہ کیا۔ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ اس دور میں بہت وقت ضائع ہوا ہے ، اگر عمران نیازی ملک کے لئے کچھ کرتا تو اس طرح کی طعنہ زنی نہ سننا پڑتی’ یہ تو قائداعظم کی روح اور قیام پاکستان میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی روحوں کو تڑپانے اور دکھ دینے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ دھرنوں سے قومی تشخص مجروح ہوا ہے۔ جب ہم نے ملک کی کشتی کو کنارے لگانے کے لئے کوششیں شروع کی ہیں تو جلائو گھیرائو اور ڈی چوک تک پہنچنے کی باتیں پھر شروع کردی گئی’ ساڑھے تین سال میں گالم گلوچ ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔ 2014ء کے دلخراش واقعات ذہنوں میں پھر تازہ ہو رہے ہیں’ اگر تاریخ کو دوبارہ دھرانے دیا گیا تو پھر کچھ نہیں بچے گا۔ عدلیہ اور اداروں کو بدنام کیا جارہا ہے’ کل سپریم کورٹ نے جب فیصلہ دیا تو ہم نے ایک لفظ بھی اس حوالے سے نہیں کہا جبکہ عمران نیازی کہتے تھے کہ فلاں چیف جسٹس اگر میرا کیس سنے تو میں اس کے لئے تیار ہوں’ پھر سب نے یہ دیکھا کہ انہیں کے خلاف دشنام طرازی بھی شروع کردی۔ ان کی یہ عادت ہے کہ فیصلے حق میں ہوں تو اچھے لگتے ہیں’ اگر خلاف آئیں تو اداروں کو گالیاں دینا شروع کردیتے ہیں’ قوم کب تک یہ برداشت کرے گی۔ اگر یہ سلسلہ رہا تو پھر ترقی اور خوشحالی کا راستہ جام ہوجائے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ 90 کی دہائی میں ہمارے روپے کی قدر بھارتی روپے سے زیادہ تھی’ اس وقت پاکستان کی معیشت کو آزاد بنایا گیا جس کی بھارت نے بھی ہماری نقل کی’ آج بھارت میں آئی ٹی کی برآمدات 200 ارب ڈالر اور ہماری صرف ڈیڑھ ارب ڈالر ہیں۔ اسی طرح کوریا بھی ہمارے پلان پر عمل کرکے آگے نکل گیا۔ ملک کے ساتھ یہ سنگین مذاق مزید جاری نہیں رہ سکتا’ اسے ختم کرنا ہوگا’ ہم سیاستدان ہیں’ تلخیاں بھی ہوتی ہیں لیکن گفتگو سے معاملات حل ہو سکتے ہیں لیکن اگر میں نہ مانوں والی بات ہو اور بندوق اٹھا لیں تو پھر اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ لاہور میں ایک پولیس اہلکار کو شہید کردیا گیا لیکن پی ٹی آئی کے سربراہ نے اس کے بارے میں کیا کہا’ کبھی ایسا ہوا ہے کہ کوئی اہلکار ڈیوٹی کے دوران شہادت کا منصب پائے اور اس پر طنز کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ عمران نیازی نے معاشرے میں زہر گھولا ہے اور تقسیم در تقسیم پیدا کی گئی ہے۔ اگر کسی نے یہ کمر باندھ لی ہے اور کوششیں شروع کی ہیں کہ ملک کی حالت بدلیں گے تو دوبارہ دھرنوں اور جلائو گھیرائو کا کیا جواز ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ساڑھے تین سال میں اپوزیشن کو گالیاں دی گئیں’ آج اس ایوان ‘ آصف علی زرداری’ بلاول بھٹو زرداری’ مولانا فضل الرحمان’ اختر مینگل’ خالد مگسی’ خالد مقبول صدیقی’ سالک حسین اور مولانا اسعد محمود نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے اس فتنے کا راستہ روکنا ہے۔ 126 دن ڈی چوک میں تماشا لگایا گیا اور ایک مرتبہ پھر خونی مارچ کا اعادہ کیا گیا ہے اور جتھے اسلام آباد لائے گئے’ اس کی قطعاً اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
شہباز شریف نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلی اور کے پی کے پولیس کے ساتھ جتھا یہاں پر آیا’ کبھی ایسا ہوا کہ ایک صوبہ وفاق پر حملہ کردے’ ایک صوبے کی حکومت کے سربراہ کی پوری معاونت سے وفاق پر حملہ کیا گیا ہے’ کسی مہذب معاشرے میں اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ بلین ٹری کے جھوٹے دعوے کرنے والوں نے اسلام آباد میں پودے جلا دیئے اور انہیں جڑوں سے اکھاڑ دیا۔ اب ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم نے تخریب کی طرف جانا ہے یا تعمیر کی طرف۔ اسلام آباد کی پولیس’ رینجرز’ ایف سی’ ٹریفک پولیس انتظامیہ اور تمام اداروں کے اہلکاروں کو جنہوں نے قانونی مارچ اور جتھوں سے لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کے لئے ایمانداری سے فرائض سرانجام دیئے انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ لاہور میں جو پولیس اہلکار شہید ہوا ہے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند کرے۔ اسکے لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکنا بڑا ظلم اور زیادتی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ شہید پولیس اہلکار اور زخمیوں کے لئے وفاق کی طرف سے پیکج کا اعلان کرتا ہوں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ میٹرو پہلے بھی ہم نے تعمیر کی پھر انہوں نے تخریب کی، ہم نے اسے بحال کیا اب پھر بحال کریں گے لیکن 22 کروڑ عوام کب تک اس کو جھیلتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں دہشتگردی میں ہزاروں افراد شہید اور زخمی ہوئے ہیں’ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں’ چاروں صوبوں بالخصوص خیبرپختونخوا کے عوام نے بڑی قربانیاں دی ہیں لیکن لانگ مارچ کے لئے پشاور سے جہاد کے نعرے کس کے خلاف لگائے گئے’ مذہب کو ذاتی مقصد کے لئے استعمال کیا گیا ہے اس فعل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے’ ایوان کل کے واقعات کے خلاف قرارداد منظور کرے اور کوئی بھی حکومت ہو پارلیمان اسے اختیار دے کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لئے بھرپور اقدامات کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران نیازی کے آخری دنوں میں دنیا میں تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں لیکن عمران نیازی نے وسائل نہ ہونے کے باوجود پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھانے کی بجائے کم کردیں تاکہ آنے والی حکومت کے لئے مشکلات بڑھیں۔ وہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم کرکے ہمارے لئے بارودی سرنگ بچھا گیا تاکہ اگر نئی حکومت پٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھاتی ہے تو پھر یہ شوشہ چھوڑے گا کہ ہم نے کم کی تھیں انہوں نے قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ اسے اپنے دور میں آٹے اور دیگر اشیاء کی قیمتیں کم کرنے کا خیال کیوں نہ آیا۔عمران نیازی نے تو اپنے دور میں تو مفت ادویات کی فراہمی اور مفت علاج کی سہولت تک بند کردی تھی،اس کے بعد بھی کیا کسی کو کوئی ثبوت چاہیے کہ ترقی اور خوشحالی کا یہ کتنا دشمن ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر کسی کو علم تھا کہ 25 مئی کو ہندوستان کی ظالم اور جابر حکومت عظیم کشمیری لیڈر یاسین ملک کو جھوٹے مقدمے میں سزا سنانے والی ہے’ عمران نیازی نے ذرا بھی خیال نہیں کیا ‘ وہ 25 مئی کی بجائے کوئی اور دن بھی اس کے لئے چن سکتا تھا لیکن اسے شہداء اور کشمیریوں کی پرواہ نہیں ہے’ یہ پتھر دل انسان ہے’ اس نے تو اپنی پارٹی کے بانی رکن نعیم الحق کی نہ تو نماز جنازہ پڑھی اور ہی فاتحہ خوانی کی۔ ایسا شخص کشمیریوں کی کیا پرواہ کرے گا’ اس نے ملک کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ یاسین ملک ایک عظیم ماں کے عظیم بیٹے ہیں’ پورا ایوان ان کو سزا دینے کی مذمت کرتا ہے۔ ان کی اہلیہ اور بچی کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان یاسین ملک کی سزا کے خلاف اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لئے ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔ قائد کے پاکستان پر خطرات منڈلا رہے ہیں لیکن یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ عمران نیازی کی ڈکٹیشن نہیں چلے گی’ ہم نے شفاف الیکشن کرانے ہیں اور یہ الیکشن کب کرانے ہیں اس کا فیصلہ یہ ایوان کرے گا۔ عمران نیازی بھول میں نہ رہنا بات چیت کے لئے دروازے کھلے ہیں’ کمیٹی بھی بنا سکتا ہوں لیکن تم اگر ڈکٹیشن دو گے اور مرعوب کرنے کی کوشش کرو گے تو یہ ڈکٹیشن اپنے گھر میں دو’ ایوان کو نہ دو’ ہم یہ ڈکٹیشن قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مشکلات اور چیلنجز موجود ہیں لیکن ہم پرعزم ہیں’ پاکستان کو عظیم ملک بنانے کے لئے جان لڑا دیں گے’ اتحاد’ اتفاق اور محنت سے 22 کروڑعوام کو کھویا ہوا مقام دلائیں گے۔