اسلام آباد: (دنیا نیوز) ایف آئی اے سنٹرل کورٹ میں منی لانڈرنگ کیس کے معاملے پر 15 جولائی کو وزیراعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ کو سنٹرل کورٹ نے دوبارہ طلب کر لیا۔
عدالت نے 15 جولائی کو کیس کے ٹرائل کے لیے تمام ملزمان کو طلب کر لیا، عدالت نے سلیمان شہباز اور طاہر نقوی کا اشتہار جاری کرنے کا حکم دے دیا، آئندہ سماعت پر تمام ملزمان پر فرد جرم عائد کیے جانے کا امکان ہے جس کے بعد مقدمہ کا باقاعدہ ٹرائل شروع ہوگا۔
قبل ازیں آج صبح اسپیشل سینٹرل کورٹ لاہور میں سماعت کے موقع پر عدالت نے شہباز شریف ،حمزہ شہباز سمیت دیگر کی حاضری لگانے کا حکم دیا۔ اس موقع پر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے منی لانڈرنگ کیس میں مفرور 3 ملزمان کی رپورٹ پیش کی۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے بتایا کہ تینوں ملزمان دیے گئے پتے پر موجود نہیں ہیں۔
دوران سماعت وزیراعظم نے روسٹرم پر آکر بیان دیتے ہوئے کہا کہ مجھ پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں، میں نے درجنوں پیشیاں بھگتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں عدالت کو کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ ایف آئی اے نے میری گرفتاری کا کوئی راستہ نکالنے کے لیے چالان میں تاخیر کی۔
دوران سماعت جج نے وزیراعظم سے سوال کیا کہ شوگر ملز میں آپ کا کوئی شیئر نہیں ہے؟ جس پر شہباز شریف نے کہا کہ شوگر مل کا ڈائریکٹر ہوں نہ مالک نہ شیئر ہولڈر۔ میں نے منی لانڈرنگ کرنی ہوتی ، کرپشن کرنی ہوتی تو میں جو فائدہ لیگلی لے سکتا تھا وہ لے لیتا ۔
شہباز شریف نے عدالت میں کہا کہ میں نے منی لانڈرنگ کر کے منہ کالا کرانا ہوتا تو خاندان کی شوگر ملوں کو نقصان کیوں پہنچاتا۔ میں نے شوگر ملز کو سبسڈی نہیں دی تاکہ قومی خزانے پر بوجھ نہ پڑے ۔میں نے یتیموں اور بیواؤں کے خزانے کو اُن ہی پر استعمال کیا ۔ خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ ایف آئی اے نے جتنے بھی فیکٹس بتائے ہیں جھوٹے ہیں ۔ میں نے 2011-12 میں بے روزگار غریب بچے بچیوں کو بولان گاڑیاں دیں ۔ 2015 میں ہم نے 50 ہزار گاڑیوں کا منصوبہ شروع کیا ۔ یہ 99 اعشاریہ 99 فیصد وہی الزمات ہیں جو نیب نے لگائے۔
دوران سماعت شہباز شریف نے عدالت سے کہا کہ آپ سے پہلے جج نے سختی کی کہ چالان مکمل کیوں نہیں کرتے ، اس عدالت میں کیس ٹرانسفر ہونے سے پہلے درجنوں بار پیش ہوا،جب میں اپوزیشن میں تھا تو نیب اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ گیا ہی نہیں۔ پراسیکیوشن نے کہا کہ یہ منی لانڈرنگ اور کرپشن کا کیس نہیں ہے۔ میرے لیے عزت کی اور کیا بات ہو گی کہ میرٹ پر بری ہوا۔ 4ججز نے کہا کہ کرپشن منی لانڈرنگ اور بے نامی اثاثوں کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ عدالت میں جب ضمانت کا معاملہ گیا تو 4 ججز نے میرے حق میں فیصلہ دیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ میرے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد کیس بنایا گیا۔ میں نے ایف آئی اے سے کہا کہ میں زبانی جواب نہیں دوں گا ۔ وکلا کی مشاورت کے بعد جواب دوں گا۔ جب عقوبت خانے میں تھا، دو مرتبہ ایف آئی اے نے تحقیقات کیں۔ سارا جھوٹ پلندہ کا ہے، جس پر منوں مٹی پڑے گی۔ میرے وکیل نے میری ضمانت کے حوالے سے تمام دلائل دے دیے ہیں۔ میرا حق ہے کہ میں اپنی ضمانت کے حوالے سے اپنی صفائی دوں ۔ میرے خلاف کرپشن کا کوئی کیس ثابت نہیں ہوا ہے ۔ دو مرتبہ لاہور ہائیکورٹ نے آشیانہ اور رمضان شوگر ملز کیس میں ضمانتیں دیں۔ عزت ہی انسان کا خاصہ ہوتا ہے۔ اللہ نے دوماہ پہلے مجھے وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری عطا کی ہے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھاؤ ں۔ اگر میرے خلاف کرپشن ثابت ہوجاتی تو میں یہاں کھڑا نہ ہوتا بلکہ منہ چھپا کر کسی جنگل میں پھر رہا ہوتا ۔
دوران سماعت ایف آئی اے پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ ضمانت کے دوران ملزمان کا رویہ مثبت رہا۔ یہ بات درست ہے کہ شہباز شریف کا ڈائریکٹ رمضان شوگر مل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شہباز شریف نہ ڈائریکٹر ہیں نہ ہی سی ای او ہیں۔ شہباز شریف کے ذاتی اکاؤنٹ میں 4 مشکوک ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں۔ رمضان شوگر مل میں حمزہ شہباز اس وقت ایم این اے تھے اور سی ای او تھے۔ حمزہ شہباز نے سالانہ آڈٹ رپورٹ میں دستخط کیے ہوئے ہیں۔ایڈووکیٹ امجد پرویز نے سوال کیا کہ کسی قانون کے تحت سی ای ہونا کوئی جرم تو نہیں ہے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ 2 چیک گلزار خان کے جنکی مالیت 25 لاکھ تھی وہ گلزار خان کے اکاؤنٹ میں گئے۔ گلزار خان وفات پا چکا ہے۔ یہ رقم شہباز شریف نے نہیں نکلوائی، مسرور انور نے نکلوائی۔ ایڈووکیٹ امجد پرویز نے کہا کہ یہ چیک اورنگزیب بٹ نے دیے تھے۔
بعد ازاں عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔ عدالت نے وکلا کی جانب سے دلائل مکمل ہونے کے بعد ملزمان کی ضمانتوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جسے بعد ازاں سنا جاری کردیا گیا۔