ضمنی الیکشن، تخت پنجاب کی جنگ، شیر کی دھاڑ یا بلے کی مار؟ کون کس کے مقابل؟

Published On 16 July,2022 09:20 pm

لاہور: (علی مصطفیٰ, عاصم حمید) پنجاب کے 20 حلقوں میں ضمنی الیکشن اتوار کو ہوں گے، شیر کی دھاڑ ہو گی یا بلے کی مار؟ تیاریاں مکمل کر لی گئیں، پولنگ کا سامان پہنچادیا گیا، پاک فوج کے جوان حساس پولنگ اسٹیشنز پر ڈیوٹی انجام دیں گے، ریٹرننگ اور اور پریذائیڈنگ افسروں کو مجسٹریٹ کے اختیارات تفویض کر دیئے گئے، ضمنی الیکشن کے حوالے سے بتانے سے قبل آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ الیکشن کیوں ہو رہے ہیں؟

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تو تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے پنجاب کے گروپ نے مائنس بزدار کے لیے صدا بلند کی، اس دوران عمران خان نے صوبے کے محاذ سے نمٹنے کے لیے عثمان بزدار سے استعفیٰ لیا اور پرویز الٰہی کو اپنا امیدوار نامزد کر دیا۔

پرویز الٰہی کو امیدوار نامزد کیے جانے کے بعد تحریک انصاف کے امیدواروں نے علم بغاوت کر دی اور علی الاعلان پرویز الٰہی کے بجائے مسلم لیگ ن کے امیدوار حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کا اعلان کیا، 16 اپریل کو جہانگیر ترین ، علیم خان اور اسد کھوکھر گروپ کی مدد سے لیگی امیدوار وزارتِ اعلیٰ کی دوڑ میں کامیاب ہوئے۔

حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے ارکان کیخلاف تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنے امیدواروں کی نا اہلی کے لیے الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ گئی، عدالت عظمیٰ کی طرف سے منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کیے جانے کا فیصلہ دیا گیا۔

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی روشنی میں فیصلہ اتفاق رائے سے سنایا تو تحریک انصاف کے منحرف ارکان پنجاب اسمبلی تاحیات نااہلی سے بچ گئے اور الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی سیٹ کردیا۔

منحرف قانون سازوں میں راجا صغیر احمد، ملک غلام رسول سنگھا، سعید اکبر خان، محمد اجمل، عبدالعلیم خان، نذیر احمد چوہان، محمد امین ذوالقرنین، ملک نعمان لنگڑیال، محمد سلمان، زوار حسین وڑائچ، نذیر احمد خان، فدا حسین، زہرہ بتول، محمد طاہر، عائشہ نواز، ساجدہ یوسف، ہارون عمران گِل، عظمیٰ کاردار، ملک اسد علی، اعجاز مسیح، محمد سبطین رضا، محسن عطا خان کھوسہ، میاں خالد محمود، مہر محمد اسلم، فیصل حیات شامل تھے۔

ان ڈی سیٹ ارکان کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے 5 مخصوص نشستوں کے لیے الیکشن کمیشن کی طرف رجوع کیا تاہم ای سی پی نے ضمنی انتخابات کے نتائج جاری ہونے کے بعد نوٹیفکیشن جاری کیے جانے کا فیصلہ کیا تاہم اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی اراکین لاہور ہائیکورٹ چلے گئے جہاں عدالت عالیہ نے فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں دیا۔

الیکشن کمیشن نے خواتین نشستوں پر بتول زین، سائرہ رضا، فوزیہ عباس جبکہ اقلیتی نشستوں پر حبکوک رفیق اور سیموئیل یعقوب کے تقرر کے نوٹیفکیشن جاری کئے۔

نمبر گیم صورتحال

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے نوٹی فکیشن جاری ہونے کے بعد پنجاب میں نمبر گیم کی صورتحال دلچسپ ہو گئی ہے، پنجاب اسمبلی کا ایوان371 ارکان پر مشتمل ہے، حکومتی ارکان کی تعداد 176 ہے، جس میں مسلم لیگ ن کے 164، پیپلز پارٹی کے 7 اور چار آزاد امیدوار شامل ہیں۔ ن لیگ کے ایک رکن منحرف ہیں، خانیوال سے رکن صوبائی اسمبلی محمد فیصل نیازی نے استعفیٰ دیا جو منظور کر لیا گیا۔ بعد ازاں انہوں نے پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان سے ملاقات کی اور حمایت کا اعلان کر دیا۔

پاکستان تحریک انصاف کو پانچ مخصوص نشستوں ملنے کے بعد تعداد 163 ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ ق 10 کے رکن کے بعد یہ تعداد 173 ہو گئی ہے۔

آزاد امیدوار

اس صورتحال میں آزاد امیدواروں کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے، سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دور میں آزاد امیدوار پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے ساتھ تھے، مسلم لیگ ن کی حکومت آنے کے بعد تمام آزاد امیدوار حمزہ شہباز کے ساتھ ہو گئے ہیں۔

آزاد امیدواروں میں سے سیّدہ جگنو محسن مسلم لیگ ن میں شامل ہونے کا اعلان کر چکی ہیں، دیگر ٹوبہ ٹیک سنگھ سے چودھری بلال اصغر ، ملتان سے قاسم عباس خان، لیہ سے ملک احمد علی اولکھ، راولپنڈی سے چودھری نثار علی خان شامل ہیں، راہ حق پارٹی کے محمد معاویہ کا بھی ووٹ اہمیت کا حامل ہو گیا ہے۔ چودھری نثار علی خان نے خود کو ابھی اس صورتحال سے الگ رکھا ہوا ہے۔

الیکشن کمپین

ضمنی الیکشن کے دوران 20 میں سے پی ٹی آئی 13نشستوں پر کامیابی حاصل کرتی ہے تو معمولی برتری سے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اور آزاد اراکین کی تعدد چار ہے جو حکومت کے ساتھ ہیں۔ ان کو توڑنے کے لیے بھی زور لگانے کا جواز مل سکتا ہے۔ اس بات کا اندازہ مسلم لیگ ن کو بھی بخوبی ہے اسی لیے نہ صرف ن لیگ بلکہ حکمران اتحاد کی جماعت پیپلزپارٹی بھی ن لیگی امیدواروں کی بھر پور حمایت کر رہی ہے۔

ایک طرف مریم نواز اور عمران خان جلسوں سے خطاب کرتے رہے جبکہ دوسری طرف ن لیگی اور پی ٹی آئی رہنما میدان میں اپنے امیدواروں کی کمپین کرنے میں مصروف رہے، امیدواروں کو کامیاب کرانے کی سر توڑ کوشش میں مکمل کمپین کی گئی، اس دوران پاکستان مسلم لیگ ن کے 4 وزراء مستعفی ہو کر الیکشن کمپین کرتے رہے، ان وزراء میں ایاز صادق، خواجہ سلمان رفیق، ملک احمد خان ، سردار اویس لغاری شامل تھے،

20 حلقے، 175امیدوار آمنے سامنے

صوبے کے 20 حلقوں میں ضمنی الیکشن کے لیے ایک سو پچھتر امیدوار آمنے سامنے ہیں، 3 ہزار 140 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں، 45 لاکھ 96 ہزار سے زائد ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ ضمنی انتخابات کی مانیٹرنگ کیلئےاسلام آباد میں الیکشن کمیشن کا مرکزی کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے، ۔

صوبائی الیکشن کمشنر سعید گل نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن مکمل غیر جانبدار ہے اور الزامات میں کوئی حقیقت نہیں، آئین اور قانون کے تحت کام کر رہے ہیں، تمام آراوز کے پاس پریذائیڈنگ افسران واٹس ایپ پر فارم 45 بھیجیں گے۔

امیدواروں کا ادل بدل

پنجاب ضمنی انتخابات میں امیدواروں کا ادل بدل ہے، تحریک انصاف کے16 منحرف ارکان کی مسلم لیگ ن کےٹکٹ پر پنجہ آزمائی ہے، 2018ء انتخابات کے دو لیگی امیدواران عرفان نیازی، عامر اقبال شاہ پی ٹی آئی میں آگئے اور جیت کیلئے پرامید ہیں۔

 ڈی سیٹ ہوئے 16 ارکان دوبارہ انتخابی معرکے میں شریک، 4 ممبران نے الیکشن نہیں لڑا، عبدالعلیم خان ضمنی انتخابات سے لاتعلق، زہرہ بتول، غلام رسول سنگھا، محسن عطا کھوسہ نے رشتہ داروں کو ن لیگ کا ٹکٹ دلوایا

پاکستان تحریک انصاف نظریاتی جماعت بھی ایکٹو ہیں، بلے باز کے نشان پر صابر منظور وٹو کی پی پی 237 بہاولنگر سے قسمت آزمائی کر رہے ہیں، پی ٹی آئی کے امیدوار سید آفتاب رضا کو ہرانے کیلئے پرجوش ہیں۔

5خواتین امیدوار میدان میں

175امیدواروں میں سے صرف 5 خواتین امیدوار ہیں، ن لیگ نے 20 حلقوں میں سے صرف ایک میں خاتون کو ٹکٹ دیا، تحریک انصاف نے کسی خاتون کو ٹکٹ نہیں دیا۔

پی پی 272 مظفر گڑھ سے زہرہ باسط بخاری ن لیگ کی امیدوار ہیں، پی پی 125 جھنگ سے کنول افتخار بلوچ، پی پی 272 مظفر گڑھ سے زرینہ کوثر، پی پی 282لیہ سے رخسانہ شعیب آزاد امیدوار ہیں۔

کن حلقوں میں الیکشن 

پنجاب اسمبلی کے حلقوں پی پی 7 راولپنڈی، پی پی 83 خوشاب، پی پی 90 بھکر، پی پی 97 فیصل آباد، پی پی 125 جھنگ، پی پی 127 جھنگ، پی پی140 شیخوپورہ، پی پی 158 لاہور، پی پی 167 لاہور، پی پی 168 لاہور، پی پی 170 لاہور، پی پی 202 ساہیوال، پی پی 217 ملتان، پی پی 224 لودھراں، پی پی 228 لودھراں، پی پی 237 بہاولنگر، پی پی 272 مظفر گڑھ، پی پی 273 مظفر گڑھ، پی پی 282 لیہ، پی پی 288 ڈیرہ غازی خان شامل ہیں۔

 کون کس کے مقابل؟

پی پی 7 راولپنڈی میں پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار راجہ صغیر ہیں، جن کا مقابلہ کرنل (ر) شبیر اعوان کے ساتھ ہے۔

2018ء کے عام انتخابات میں راجہ صغیر احمد نے بطورِ آزاد امیدوار فتح حاصل کی اور بعد میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ انہوں نے ن لیگ اور پی ٹی آئی کے راجہ محمد علی اور غلام مرتضیٰ ستی کو شکست دی تھی۔

پی پی 83 خوشاب:

پی پی 83 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار امیر حیدر سنگھا ہیں جن کے مد مقابل تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عمر اسلم اعوان کے بھائی حسن اسلم ملک ہیں۔

2018ء کے عام انتخابات میں آزاد امیدوار ملک غلام رسول سنگھا کامیاب ہوئے تھے اور پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے، انہوں نے مسلم لیگ ن کے امیدوار محمد آصف ملک، آزاد امیدوار ملک ظفر اللہ خان بگٹی اور تحریک انصاف کے گل اصغر خان کو زیر کیا تھا۔

پی پی 90 بھکر:

اس حلقے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں سے پاکستان مسلم لیگ ن کے سابق رہنما اور عمران خان کے کزن عرفان اللہ خان نیازی پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں جن کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے سعید اکبر نوانی سے ہے۔

2018ء کے جنرل الیکشن میں آزاد امیدوار سعید اکبر خان نوانی نے فتح حاصل کی اور پی ٹی آئی میں شامل ہوئے، انہوں نے ن لیگ کے عرفان اللہ خان نیازی اور پی ٹی آئی کے احسان اللہ کو شکست دی تھی۔

پی پی 97 فیصل آباد:

اس حلقے میں پاکستان تحریک انصاف نے علی افضل ساہی کو میدان میں اُتارا ہے جن کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے امیدوار اجمل چیمہ سے ہے۔

2018ء کے جنرل انتخابات میں انہی امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا تھا، اجمل چیمہ نے بطورِ آزاد امیدوار فتح حاصل کر کے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

پی پی 125 ، 127جھنگ:

پی پی 125 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار فیصل حیات جبوانہ کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے میاں اعظم چیلہ سے ہے، جبکہ پی پی 127 میں ن لیگ کے مہر اسلم بھروانہ کا مقابلہ مہر نواز بھروانہ سے ہے۔

2018ء کے جنرل انتخابات میں پی پی 125 سے آزاد امیدوار فیصل حیات جبوانہ نے فتح سمیٹی تھی اور میاں اعظم چیلہ کو شکست دی تھی جبکہ پی پی 127 سے بھی آزاد امیدوار مہر محمد اسلم بھروانہ نے مہر محمد نواز بھروانہ کو پچھاڑا تھا۔

پی پی 140 شیخوپورہ:

اس حلقے میں پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار میاں خالد محمود کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار خرم شہزاد ورک سے ہے۔

2018ء کے جنرل الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار میاں خالد محمود نے مسلم لیگ ن کے امیدوار یاسر اقبال کو شکست دی تھی۔

پی پی 158 ، 167، 168، 170 لاہور:

صوبائی دارالحکومت لاہور کے چار حلقوں میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کا جوڑ پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں سے پڑے گا۔ چاروں حلقوں میں پی ٹی آئی نے فتح حاصل کی تھی، تاہم حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کی پاداش میں تمام امیدوار ڈی سیٹ ہو گئے ہیں۔

پی پی 158 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا احسن شرافت کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما محمود الرشید کے داماد میاں اکرم عثمان سے ہے۔

اس سے قبل 2013 کے عام انتخابات میں میاں اکرم عثمان نے اس وقت کے حلقہ پی پی 149 سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا تھا تاہم وہ ن لیگ کے امیدوار رانا مشہود کے ہاتھوں شکست کھا گئے تھے۔

2018ء کے جنرل الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عبد العلیم خان نے ن لیگ کے امیدوار رانا احسن شرافت کو شکست دی تھی، علیم خان ڈی سیٹ ہوئے تو انہوں نے دوبارہ الیکشن لڑنے سے معذرت کر لی جس کے بعد مسلم لیگ نے دوبارہ ٹکٹ رانا احسن شرافت کو دیا۔

پی پی 167 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار نذیر چوہان کا مقابلہ چودھری شبیر گجر سے ہے۔

2018ء کے جنرل الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار نذیر چوہان نے ن لیگ کے امیدوار میاں محمد سلیم کو زیر کیا تھا۔

پی پی 168 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ملک اسد کھوکھر کو ٹکٹ دیا، جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ملک نواز اعوان میدان میں ہیں۔

2018ء کے جنرل الیکشن میں خواجہ سعد رفیق فاتح قرار پائے تھے، انہوں نے پی ٹی آئی کے امیدوار فیاض بھٹی کو شکست دی تھی، تاہم خواجہ سعد رفیق کی جانب سے ایم این اے منتخب ہونے کے بعد یہ سیٹ چھوڑی، اس حلقے میں الیکشن کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ملک اسد کھوکھر نے فتح حاصل کی تھی۔ جو اب پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں۔

پی پی 170 میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کے قریبی دوست عون چودھری کے بھائی محمد ذوالقرنین کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ظہیر عباس کھوکھر سے ہے۔

2018ء کے جنرل الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حصہ لینے والے عون چودھری کے بھائی محمد ذوالقرنین نے ن لیگ کے عمران جاوید کو ہرایا تھا۔

پی پی 202 چیچہ وطنی

اس حلقے میں پاکستان مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی کے منحرف رکن ملک نعمان لنگڑیال کو ٹکٹ دیا، اس حلقے میں پاکستان تحریک انصاف نے میجر (ر) غلام سرور کو ٹکٹ دیا ہے۔

2018ء کے جنرل الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ملک نعمان لنگڑیال نے ن لیگ کے شاہد منیر کو 13 ہزار کی ووٹوں سے شکست دی تھی۔

پی پی 217 ملتان

اس حلقے میں پاکستان تحریک کے امیدوار سابق وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی ہیں اور ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے امیدوار محمد سلمان نعیم کے ساتھ ہے۔

2018ء کے جنرل الیکشن میں بطورِ آزاد امیدوار محمد سلمان نعیم نے پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئر مین شاہ محمود قریشی کو شکست دی تھی اور جہانگیر ترین کے توسط سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پی ٹی آئی کے دیرینہ کارکن تھے تاہم ان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا جس کے باعث یہ آزاد امیدوار میدان میں اُترے تھے۔

پی پی 224، 228 لودھراں:

لودھراں کے دو حلقوں کے علاقے دنیا پور، لودھراں تحصیل میں پاکستان مسلم لیگ ن زوار حسین وڑائچ اور نذیر احمد بلوچ کو میدان میں اُتارا ہے، ان کا مد مقابل پاکستان تحریک انصاف کے عامر اقبال شاہ اور کیپٹن (ر) عزت جاوید سے ہے۔

2018ء کے جنرل الیکشن میں دونوں حلقوں زوار حسین وڑائچ نے ن لیگ کے رہنما محمد عامر اقبال شاہ اور نذیر احمد خان نے مسلم لیگ ن کے سیّد محمد رفیع الدین بخاری کو پچھاڑا تھا، پی ٹی آئی کے دونوں فاتح امیدوار اب ضمنی الیکشن میں ن لیگ کے پلیٹ فارم سے حصہ لے رہے ہیں۔

پی پی 237 بہاولنگر:

بہاولنگر کے اس حلقے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار فدا حسین وٹو کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے سیّد آفتاب رضا سے ہے۔

2018ء کے جنرل الیکشن میں آزاد امیدوار فدا حسین نے پاکستان تحریک انصاف کے محمد طارق عثمان کو شکست دی تھی، اور بعد میں جہانگیر ترین خان کے توسط سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔

پی پی 272، 273 مظفر گڑھ:

ضلع مظفر گڑھ کے علاقے شہر سلطان جتوئی، علی پور میں ضمنی الیکشن کے دوران پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدواروں زہرہ باسط سلطان اور سبطین رضا بخاری کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے معظم جتوئی اور یاسر عرفا جتوئی سے ہے۔ دوسری طرف باسط سلطان کے بھائی ہارون بخاری بھی آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں موجود ہوں گے۔ ایک ہی خاندان کی ان دو شخصیات میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔

2018ء کے بائی الیکشن کے دوران زہرہ بتول نے کامیابی حاصل کی تھی، انہوں نے آزاد امیدوار سیّد ہارون احمد بخاری کو ہرایا تھا جبکہ پی پی 273 میں پاکستان تحریک انصاف کے سبطین رضا بخاری نے آزاد امیدوار رسول بخش کو پچھاڑا تھا۔

پی پی 282 لیہ:

اس حلقے میں پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار لالہ طاہر رندھاوا کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے قیصر عباس مگسی سے ہے۔

2018ء کے الیکشن میں آزاد امیدوار لالہ طاہر رندھاوا نے پی ٹی آئی کے قیصر عباس خان کو شکست دیکر فتح حاصل کی تھی۔

پی پی 288 ڈی جی خان :

اس حلقے میں پاکستان مسلم لیگ ن کا مقابلہ عبد القادر کھوسہ سے ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے ٹکٹ سیف الدین کھوسہ کو دیا ہوا ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف نے اس حلقے میں جس کو اپنا امیدوار چنا ہے وہ بھی محسن عطا کھوسہ کے کزن ہیں۔ سردار سیف الدین کھوسہ نے 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی ہی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے لیے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔

وہ ایک طویل عرصے تک پاکستان مسلم لیگ ن کے دیرینہ رہنما رہنے والے سابق سینیٹر سردار ذولفقار خان کھوسہ کے صاحبزادے ہیں۔ 2018 سے قبل وہ خود بھی ایک طویل عرصے تک ن لیگ کے ساتھ منسلک رہے ہیں اور کئی مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔

2018ء کے جنرل الیکشن کے دوران اس حلقے میں محسن عطاء خان کھوسہ نے بطورِ آزاد امیدوار کامیابی حاصل کی تھی اور پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

 

Advertisement